بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے مطالبہ پر Go Ahead کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

خالد پاکستان سے باہر رہتا ہے اور اس کی مادری زبان انگریزی ہے، اس نے ایک خاتون سے اپنے ہی ملک میں شادی کی، جس کی مادری زبان بھی انگریزی ہی ہے، آپس کی نا اتفاقی اور خاتون کے مطالبہ طلاق پر ایک بار جب خاتون طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی تو خالد نے اس کو انگریزی میں "Go Ahead"" کہاجوخالدکے عرف میں اس معنی میں ہے کہ : آگے بڑھو جو تمہیں کرنا ہے کر لو؛ جیسا تمہاری مرضی ہے ویسا کر لو ؛کہہ دیا اور اس سے طلاق مراد لی، خاتون نے عدت گزار ناشروع کر دی، لیکن دو ہفتے بعد ہی میاں بیوی نے رجوع کر لیا اور دوبارہ ازدواجی حیثیت سے زندگی گزارنے لگے، تقریباًچھ ماہ بعد پھر میاں بیوی میں نا اتفاقی ہوئی اور خاتون دوبارہ اپنے میاں سے طلاق کا مطالبہ کرنے لگی، اسی مذاکرہ طلاق میں شوہر نے دوبارہ"Go Ahead" کہدیا اور طلاق ہی مراد لی، خاتون نے دوبارہ عدت گزار ناشروع کر دی ،البتہ عدت کے دوران یہ دونوں ملتے رہے، باہم بوس و کنار بھی کرتے رہے اور جماع کے سوامیاں بیوی والے سارے ہی معاملات ان کے درمیان پیش آتے رہے،عدت کے دورانیہ کے ختم ہونے کے بعد اسی خاتون نے اپنے سابقہ شوہر سے شادی کر لی، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد شوہر کے برے رویے کی وجہ سے خاتون نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنی بہن کے گھر رہنے لگی، اس دوران خاتون کا خالد سے بھی رابطہ رہا اور ایک دن خالد اس خاتون کو ایک مولوی صاحب کے پاس لے گیا، اور ان مولوی صاحب کو یہ بتایا کہ یہ میرے نکاح میں تھی اور اس نے میرے نکاح میں رہتے ہوئے سابقہ شوہر سے شادی کر لی ہے، اور آج کل یہ اس پہلے شوہر سے ناراض ہو کر اپنی بہن کے ہاں رہتی ہے، جس پر مولوی صاحب نے کہا کہ خاتون کے لیے سابقہ شوہر سے نکاح جائز ہی نہیں تھا وہ تو خالد کے نکاح میں ہے، اس کے بعد سابقہ شوہر سے طلاق لیے اور عدت گزارےبغیر خاتون ایک بار پھر خالد کے ساتھ بغیر کسی تجدید ِنکاح کے بیوی کی حیثیت سے رہنے لگی، کچھ عرصہ کے بعد پھر نا اتفاقی ہوئی اور خاتون نے پھر خالد سے طلاق کا مطالبہ کر دیا ،جس پر پھر خالد نے"Go Ahead"کہا اور اس سے بھی طلاق ہی مراد لی ،اور یہ خاتون ایک بار پھر عدت گزار نے لگی، عدت کے دوران ایک دوسرے سے ملتے رہے اور ایک بار تو جماع بھی ہو گیا اور دواعی جماع جیسے بوس و کنار تو ہوتے ہی رہے۔

اب اس سارے معاملہ کے بعد یہ سوال ہے کہ کیا خاتون پر خالد کی طرف سےتین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں یا نہیں ؟ اگر واقع ہو چکی ہیں تو اگر خالد اس خاتون سے تجدیدِ نکاح کرنا چاہے نئے مہر کے ساتھ ،تو کیا یہ خالد کے لیے جائز ہو گا؟ یا شرعا ان دونوں کو نئے نکاح کی بھی اجازت نہیں ہو گی جب تک شرعی حلالہ نہ ہو جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً خالدنے بیوی کے طلاق کے مطالبہ پر Go ahead کہا،جس کامطلب اس کے عرف میں یہ ہے کہ آگے چلو،جوتمہیں کرناہے کرلو،جیساتمہاری مرضی ہے ویساکرلوتواس سےخالد کی بیوی پرطلاق واقع نہیں ہوئی ،اگرچہ اس کی نیت طلاق کی تھی،لہذااس کانکاح اپنی بیوی سے برقرارتھا،بیوی کےلیے سابقہ شوہرسے نکاح کرناجائزنہیں تھا،جتناعرصہ ساتھ رہے ہیں اس پرتوبہ واستغفارکرناضروری ہے۔

خلاصہ یہ کہ سائلہ کا نکاح خالدسے برقرارہے،البتہ خالدکے لیے ایک حیض گزارنے سے پہلے بیوی کے قریب جانادرست نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو قال: أعرضت عن طلاقك أو صفحت عن طلاقك ونوى الطلاق لم تطلق؛ لأن الإعراض عن الطلاق يقتضي ترك التصرف فيه، والصفح هو الإعراض فلا يحتمل الطلاق ولا تصح نيته.

وكذا كل لفظ لا يحتمل الطلاق لا يقع به الطلاق، وإن نوى، مثل قوله: ‌بارك ‌الله ‌عليك أو قال لها: أطعميني أو اسقيني ونحو ذلك، ولو جمع بين ما يصلح للطلاق وبين ما لا يصلح له بأن قال لها: اذهبي وكلي، أو قال اذهبي وبيعي الثوب، ونوى الطلاق بقوله اذهبي ذكر في اختلاف زفر ويعقوب أن في قول أبي يوسف: لا يكون طلاقا وفي قول زفر يكون طلاقا.

وجه قول زفر أنه ذكر لفظين: أحدهما يحتمل الطلاق والآخر لا يحتمله فيلغو ما لا يحتمله ويصح ما يحتمله ولأبي يوسف أن قوله: اذهبي مقرونا بقوله كلي أو بيعي لا يحتمل الطلاق؛ لأن معناه اذهبي لتأكلي الطعام واذهبي لتبيعي الثوب، والذهاب للأكل والبيع لا يحتمل الطلاق فلا تعمل نيته."

(كتاب الطلاق ، فصل في الكناية في الطلاق  ج : 3 ص : 108 ط : دارالكتب العلمية)

الدر مع الرد میں ہے:

"أما نکاح منکوحة الغیر…فلم یقل أحد بجوازہ، فلم ینعقد أصلاً."

(كتاب النكاح ، باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد ج : 3 ص : 132 ط : سعيد)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع. ولو تزوج بمنكوحة الغير وهو لا يعلم أنها ‌منكوحة ‌الغير فوطئها؛ تجب العدة، وإن كان يعلم أنها ‌منكوحة ‌الغير لا تجب حتى لا يحرم على الزوج وطؤها، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، في بيان المحرمات ،ج : 1 ص : 346 ط : رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں