ایک صاحب خیر نے کچھ رقم براۓ طلبہ استاد محترم کو دی کہ جس کو جو ضرورت ہو اس میں صرف کریں ۔ ضروت کے پیش نظر طلبہ کو بیگ (بستہ) دینا طے پایا ۔ اب استاد اسے ہول سیل ریٹ میں خرید کر لاتے ہیں اور مارکیٹ کی ریٹ نکال کر مابقیہ رقم اپنے سفر خرچ وغیرہ میں شامل کر لیتا ہے تو کیا یہ طریقہ (حیلہ) اس کے لیے جائز ہوگا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں استاذ صاحب کو صاحبِ خیر نے طلبہ کے لیے رقم دیتے ہوئے یہ کہا جس کو ضرورت ( جس طالب علم کو ضرورت ) ہو اس پر خرچ کریں تو اس صورت میں یہ رقم طلبہ کی ضروریات ہی پر خرچ کی جائے گی اس رقم سے سفر وغیرہ کا خرچہ نکالنا جائز نہیں ہے ،بلکہ پوری رقم طلبہ میں خرچ کرنا ضروری ہے ۔
البحر الرائق میں ہے :
"و للوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرًا كان أو صغيرًا، و إلى امرأته إذا كانوا محاويج، و لايجوز أن يمسك لنفسه شيئًا اهـ. إلا إذا قال: ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه، كذا في الولوالجية".
(کتاب الزکاۃ،شروط اداء الزکاۃ،277/2،دارالکتاب الاسلامی)
البنایۃ میں ہے :
"التفويض والتسليم من وكل إليه الأمر إذا فوضه إليه ... و الوكيل القائم بما فوض إليه".
(کتاب الوکالۃ،216/9،دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501102276
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن