میرےوالدمحترم کاانتقال 2006ءمیں ہواتھا، اس وقت میرےوالدکاایک شادی ہال تھا، جس کی موجودہ قیمت تقریبا30کروڑسےزیادہ ہے، اورایک مکان ہےجس میں ہم بہن بھائی رہائش پذؔیرہیں، اس مکان کی قیمت تقریبا5کروڑسےزیادہ ہے، اس کےعلاوہ ایک دکان تھی، اورایک پلاٹ میری والدہ کےنام پرتھا، 2022ء میں میری والدہ کاانتقال ہوگیاتھا، ورثاء میں چھ بیٹےاورتین بیٹیاں ہیں، چھ بیٹوں میں سےدوبیٹوں کوان کی رضامندی اورخوشی سےحصہ دےکران کوفارغ کردیاتھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دوبھائیوں نےکورٹ میں کیس کردیاتھا، اس وجہ سےان کےساتھ مصالحت کرکےان کوان کاحصہ دیاتھا، اب چاربھائی اپنی بہنوں کوحصہ دینانہیں چاہ رہےہیں، اگردےبھی رہےہیں توبہت ہی کم حصہ دےرہےہیں، سوال یہ ہےکہ بہنوں کاوراثت میں کتناحصہ بنےگا؟شرعی راہ نمائی فرمائیں۔
جائیدادکی مکمل قیمت اس وقت تقریبا40کروڑروپےہے۔
صورت ِ مسئولہ میں والدین کےترکہ میں جس طرح بیٹوں کاحق ہےاسی طرح بیٹیوں کابھی حق ہے، بھائیوں کاترکہ پر قبضہ کرکےبہنوں کوان کےحق سےمحروم رکھنایاان کےشرعی حصےسےان کاحصہ کم کرکےدیناگناہ ِکبیرہ ہے، اورآخرت میں پکڑاورعذاب کا باعث ہے،روایت میں آتاہےکہ جوشخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلماًدبائےگاقیامت کےدن وہ زمین سات زمینوں تک اس کی گردن میں بطورِ طوق ڈال دی جائےگی، لہذا اگرواقعتًا والدین کےترکہ پر بھائیوں نے قبضہ کیاہواہے، اوربہنوں کوان کاحق نہیں دےرہےیاان کےشرعی حصےسےان کاحصہ کم کرکےدےرہےہیں تو یہ بھائی سخت گناہ گار ہیں ، ان پرلازم ہےکہ ناجائز قبضہ ترک کرکےکل مال ِوراثت کوجلدازجلدتقسیم کرکےبہنوں کوان کاپوراحق حوالہ کردیں۔ ورنہ آخرت میں بدترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بہنوں کاشرعی حصہ بھائیوں کےشرعی حصےکےمقابلےمیں نصف ہے۔ترکہ کی تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ مرحومین کے ترکہ میں سے حقوق متقدمہ یعنی اُن کےتجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے کے بعد ، اگر مرحومین کےذمہ کوئی قرض ہوتوکل مال سے اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل منقولہ وغیرہ منقولہ ترکہ کو11حصوں میں تقسیم کرکےدو،دوحصےمرحومین کے چاربیٹوں میں سےہربیٹےکواورایک ،ایک حصہ مرحومین کی ہربیٹی کوملےگا۔
میت(والدین):مسئلہ:15بعدالتخارج:11
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 |
تخارج | تخارج | - | - | - | - | - | - | - |
فیصدکےاعتبارسے100فیصدمیں سے18.181فیصدمرحومین کےچاربیٹوں میں سےہربیٹےکواور9.090فیصدمرحومین کی ہربیٹی کو ملیں گے۔
40کروڑروپےمیں سے72,727,272.72روپے مرحومین کے چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو،اور36,363,636.36 مرحومین کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
ارشادِربّانی ہے:
{لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ} (سورۃ النسآء، الآیة:11)
”لڑکےکاحصہ دولڑکیوں کےحصہ کےبقدرہے“(معارف القرآن)
تفسیرابن کثیرمیں ہے:
"فقوله تعالى: {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشم المشقة، فناسب أن يعطى ضعفي ما تأخذه الأنثى."
(سورۃالنساء، الآية:11، ج:2، ص:225، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."
(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، الفصل الأول، 887/2، ط: المکتب الإسلامي)
"حضرت سعید ابن زیدسےرضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:جوشخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلماًدبائےگاقیامت کےدن وہ زمین سات زمینوں تک اس کی گردن میں بطورِ طوق ڈال دی جائےگی۔"(مظاہرحق)
مجمع الزوائدمیں ہے:
"عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «اضمنوا لي ست خصال أضمن لكم الجنة ". قالوا: وما هن يا رسول الله؟ قال: " لا تظلموا عند قسمة مواريثكم، وأنصفوا من أنفسكم» ". فذكر الحديث.وقد تقدم في الأحكام."
(کتاب الفرائض، باب الإنصاف عند القسمة، 224/4، ط:مكتبة القدسي)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما حكم الغصب فله في الأصل حكمان: أحدهما: يرجع إلى الآخرة، والثاني: يرجع إلى الدنيا.أما الذي يرجع إلى الآخرة فهو الإثم واستحقاق المؤاخذة إذا فعله عن علم؛ لأنه معصية، وارتكاب المعصية على سبيل التعمد سبب لاستحقاق المؤاخذة، وقد روي عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى من سبع أرضين يوم القيامة...(وأما) الذي يرجع إلى الدنيا، فأنواع: بعضها يرجع إلى حال قيام المغصوب، وبعضها يرجع إلى حال هلاكه، وبعضها يرجع إلى حال نقصانه، وبعضها يرجع إلى حال زيادته.(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب."
(کتاب الغصب، فصل في حكم الغصب، 148/7، ط: دار الکتب العلمة)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا."
(کتاب الصلح، الباب الخامس عشر في صلح الورثةالخ، 268/4، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603103019
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن