بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کا طریقہ


سوال

نماز میں مردوں کو کہاں تک ہاتھ اٹھانے چاہییں ،  میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے (خصوصاً عرب کو)کہ وہ صرف اپنے سینے تک ہاتھ اٹھاتے ہیں ، اور کچھ لوگ اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ کان کی لو تک ہاتھ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ کانوں کی لو کو ہاتھ ٹچ بھی کرتے ہیں ،  براہ کرم یہ بتادیں کہ درست طریقہ کیا ہے ، کیا کانوں کی لو تک ہاتھ ٹچ کرنا ضروری ہے یا ہاتھ صرف کندھوں تک اٹھائے جائیں اور اگر ہاتھ کانوں تک اٹھانے چاہئیں تو کیا جو شخص ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتا ہے تو کیا وہ گناہ گار ہوتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ احادیث مبارکہ میں تکبیر تحریمہ کے وقت  ہاتھ اٹھانے سے متعلق تینوں طریقے (کندھوں تک، کانوں کی لو تک اور کانوں تک ) احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں، علماءِ احناف کے ہاں مرد وں کے  لیے تکبیر تحریمہ کہتے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھانا مستحب ہے ، کیوں کہ اس میں تینوں طرح کی روایات پر عمل ہو جاتا ہے، اس طرح کہ گٹے کندھوں کی محاذات میں، انگوٹھے کانوں کی لو کے محاذات میں اور ہاتھ کی انگلیاں کانوں کے محاذات میں،باقی کانوں کی لو کو  ہاتھ لگانا ضروری نہیں ہے، تاہم کندھوں تک ہاتھ اٹھانا بھی اللہ کے رسول سے ثابت ہے اس لیے اگر کوئی شخص کندھوں تک ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ گناہ گار نہ ہوگا۔

معجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن وائل بن حجر قال جئت النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يا وائل بن حجر إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها."

(ج:9، ص:144، رقم:17497، ط:دار الفکر) 

"ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔"

مؤطا مالک میں ہے:

"عن نافع، أن عبد الله بن عمر كان «إذا افتتح الصلاة، رفع يديه حذو ‌منكبيه."

(ج:1، ص:77، ط:دار احیاء)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌مالك بن الحويرث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم « كان إذا كبر رفع يديه حتى يحاذي ‌بهما ‌أذنيه."

(ج:2، ص:7، ط:دار الطباعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ورفع يديه) قبل التكبير، وقيل: معه (ماساً بإبهاميه شحمتي أذنيه) هو المراد بالمحاذاة؛ لأنها لاتتيقن إلا بذلك، ويستقبل بكفيه القبلة، وقيل: خديه (والمرأة) ولو أمة كما في البحر لكن في النهر عن السراج أنها هنا كالرجل وفي غيره كالحرة (ترفع) بحيث يكون رءوس أصابعها (حذاء منكبيها) وقيل: كالرجل.

(قوله: هو المراد بالمحاذاة) أي الواقعة في كتب ظاهر الرواية وبعض روايات الأحاديث كما بسطه في الحلية، ووفق بينها وبين روايات الرفع إلى المنكبين، بأن الثاني إذا كانت اليدان في الثياب للبرد كما قاله الطحاوي أخذاً من بعض الروايات، وتبعه صاحب الهداية وغيره، واعتمد ابن الهمام التوفيق بأنه عند محاذاة اليدين للمنكبين من الرسغ تحصل المحاذاة للأذنين بالإبهامين، وهو صريح رواية أبي داود قال في الحلية: وهو قول الشافعي، ومشى عليه النووي وقال في شرح مسلم: إنه المشهور من مذهب الجماهير."

(ج:1، ص:482، ط:سعید)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں