بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت کی نیت سے خریدی گئی زمین پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں زمینوں کی خرید و فروخت کا معاملہ کرتا ہوں منافع کے لیے، اگر میں نے منافع کے لیے زمین خریدی، اور وہ چار پانچ سال میں فروخت نہیں ہوئی، تو زکات کس حساب سے دوں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر کوئی زمین تجارت کی نیت سے خریدی گئی ہے تو اس کی قیمتِ فروخت پر ہر سال زکات فرض ہوگی، یعنی جب زکات کا سال پورا ہو، اس وقت مارکیٹ میں جو فروخت کی قیمت ہوگی، اس کا اعتبار ہوگا، اور اس سے ڈھائی فیصد زکات نکالنا لازم ہوگا۔

اور اگر پانچ سال پہلے تجارت کی نیت سے خریدی گئی زمین  کی زکات ادا نہیں کی گئی ہے اور اب بھی اس زمین کو بیچنے کی ہی نیت ہے، تو مارکیٹ میں فی الوقت مذکورہ زمین کی قیمتِ فروخت کے اعتبار سے  پانچ سال کی زکات ادا کی جائے، جس کی ادئیگی کا طریقہ کار یہ ہےکہ زکات ادا کرتے وقت  زمین کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا، اور  گزشتہ  ہر سال کے بدلے اس کا  ڈھائی فیصد ادا کیا جائے گا، اور اس مقدار کو  اگلے سال کی زکات نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح آگے بھی کیا  جائے گا، مثلاً پلاٹ کی مالیت 95000 روپے ہے، اور ایک سال  کے بدلے 2375 روپے  زکاۃ دی تو اگلے سال  کی زکات نکالتے وقت اس کو منہا کرکے بقیہ 92625 روپے  کا چالیسواں حصہ زکات  میں ادا کیا جائے گا۔ اگر  مذکورہ چند سالوں   کی زکات نکالنے کے بعد پلاٹ کی قیمت  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) سے کم رہ جائے تو پھر  اس کی زکات ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔

فتاوہ ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين. و تعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

(كتاب الزكوة، الباب الثالث فى زكوة الذهب، الفصل فى العروض، ج:1، ص:179، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205201147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں