بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی تصویر سوشل میڈیا پر شائع کرنے کا گناہ کس پر ہو گا؟


سوال

 سوال یہ ہے کہ جوبھی انتقال کرجاتاہے اس کی تصویر سوشل میڈیاپر نشر کی جاتی ہے یا واٹس ایپ اسٹیٹس پر لگا دیا جاتاہے، مغفرت کی دعا کی جاتی ہے یا کچھ اشعار لگائے جاتے ہیں، یا ان کے فوٹو کی ویڈیو بناکر اشعار پڑھے جاتے ہیں ۔ یہ کہاں تک صحیح ہے رہنمائی فرمائے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شدید ضرورت کے بغیر جان دار  کی تصویرکھینچنا، بنانا، اورمحفوظ رکھنا ، اس کی اشاعت کرناناجائز اورحرام ہے،  اس پر حدیثِ مبارک میں بہت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں  زندہ یا کسی مرحوم شخص کی تصویر  بنانا، اپنے پاس محفوظ رکھنا ، سوشل پر شائع کرنا، مرحوم کی تصویر کے ساتھ واٹس ایپ اسٹیٹس لگا کر مغفرت کی دعا کر سب ناجائز  حرام اور گناہ کے کام ہیں ، اس کو ڈیلیٹ کردینا ضروری ہے، بلکہ مرحومین کی تصویریں رکھنا اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے؛  اس لیےکہ گزرے ہوئے نیک لوگوں کی تصاویر اور مورتیوں سے شرک کی ابتدا  ہوئی تھی  کہ لوگ ان کی عظمت اور عقیدت میں رفتہ رفتہ ان کو پوجنے لگے تھے، اس لیے اسلام میں تصویر کشی  اور تصویر سازی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔

البتہ مرحوم کی تصویر کے بغیرمرحوم کی فوتگی کی اطلاع اور مغفرت کی دعا کے لیے واٹس ایپ اسٹیٹس لگانا جائز ہے۔

باقی اگر کسی نے از خود مرحوم کی تصویر کھینچ کر اپنے پاس رکھ لی، یا اسے سوشل میڈیا پر شائع کر دی  تو اب اس کا گناہ مرحوم کو نہیں ہوگا، بلکہ خود اس تصویر رکھنے والے شیئر کرنے والے کو ہوگا۔ تاہم   مرحوم نے اگر اس کی وصیت کی ہو یا اس کی خواہش ظاہر کی ہو تو یہ اس کا عمل ہوگا، اس لیے یہ اس کے لیے مواخذے کا سبب ہوسکتاہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن أبيه، أنه سمع عائشة، تقول:‏‏‏‏ دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سترت سهوةً لي بقرام فيه تماثيل، ‏‏‏‏‏‏فلما رآه هتكه وتلون وجهه، ‏‏‏‏‏‏وقال: يا عائشة:‏‏‏‏ "أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله"، ‏‏‏‏‏‏قالت عائشة:‏‏‏‏ فقطعناه، ‏‏‏‏‏‏فجعلنا منه وسادةً أو وسادتين".

(صحیح مسلم، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج: 3، صفحہ: 1668، رقم الحدیث: 2107، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:  "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے  ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ ڈالا ہوا تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھاڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کا رنگ بدل گیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ!  قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب اللہ کی طرف سے ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی مخلوق کی تصویریں بناتے ہیں۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ پھر ہم نے  اس پردے کو کاٹ کر ایک تکیہ  یا دو تکیے  بنا لیے۔"

"عن نافع، أن ابن عمر أخبره، ‏‏‏‏‏‏أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "الذين يصنعون الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم".

(صحیح مسلم، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج: 3، صفحه: 1669، رقم الحدیث: 2108، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:   "حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خبر دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا: ”جو لوگ تصویریں  بناتے ہیں  قیامت  کے دن ایسے لوگوں کو عذاب  دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ   ان ان (تصویروں وغیرہ) میں جان ڈالو۔"

"عن مسروق، عن عبد الله، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "إن أشد الناس عذاباً يوم القيامة المصورون".

(صحیح مسلم، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج: 3، صفحہ: 1670، رقم الحدیث: 2109، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:  "حضرت مسروق کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سناوہ فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا: ” قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب  تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔"

"عن سعيد بن أبي الحسن ، قال:‏‏‏‏ جاء رجل إلى ابن عباس ، فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور فأفتني فيها؟ فقال له:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا منه، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا حتى وضع يده على رأسه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ أنبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ " كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفساً فتعذبه في جهنم "، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ إن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر، ‏‏‏‏‏‏وما لا نفس له".

(صحیح مسلم، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج: 3، صفحہ: 1670، رقم الحدیث: 2110، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:"حضرت  سعید بن ابی الحسن ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: میں مصور ہوں  اور تصویریں بنانا ہوں ، آپ اس بارے مین مجھے فتوی دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آدمی سےفرمایا: میرے قریب ہو جاؤ وہ آپ کے قریب ہوگیا، پھر فرمایا:  میرےقریب ہوجاؤوہ اور قریب ہوگیا یہاں تک کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر فرمایا: میں تجھ وہ حدیث بیان کرتا ہوں  جو میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا: ”ہر ایک تصویر بنانے والا دوزخ  اور ہر ایک تصویر کے بدلہ ایک جان دار آدمی بنایا جائے گا جو اسے جہنم میں عذاب دے گا۔“حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر تجھے اس طرح کرنے پر مجبوری ہے تو(بے جان چیزوں)  درخت  وغیرہ کی تصویریں بنا۔"

"عن النضر بن أنس بن مالك ، قال:‏‏‏‏ كنت جالساً عند ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏فجعل يفتي، ‏‏‏‏‏‏لا يقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سأله رجل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور، ‏‏‏‏‏‏فقال له ابن عباس:‏‏‏‏ ادنه فدنا الرجل، ‏‏‏‏‏‏فقال ابن عباس : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ "من صور صورة في الدنيا كلف أن ينفخ فيها الروح يوم القيامة، ‏‏‏‏‏‏وليس بنافخ".

(صحیح مسلم، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج: 3، صفحہ: 1670، رقم الحدیث: 2110، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:"  حضرت نضر بن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ  میں  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، حضرت ابن عباس فتویٰ دیتے تھے اور یہ نہیں کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی  نے پوچھاکہ: میں مصور آدمی  ہوں یہ تصویریں بناتا ہوں،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےاس آدمی سے فرمایا: میرے  قریب ہو جاؤ، وہ آدمی قریب ہو گیاتو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےارشاد فرمایاکہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جو آدمی  تصویر بناتا ہے تو  قیامت  کے دن اسے اس بات پر مجبور کر دیا جائے گا کہ اس میں روح پھونک اور وہ روح نہیں پھونک سکے گا۔"

(تحفۃ المنعم شرح صحیح مسلم، ج: 6، صفحہ: 592 تا 598، ط: مکتبہ ایمان ویقین)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں