ہمارے علاقہ میں ایک فصل کاشت کی جاتی ہے جس کو تریاق کہا جاتا ہے ،یہ تریاق ایک نشہ آور چیز ہے جس کا زیادہ تر استعمال ادویہ میں کیا جاتا ہے اور لوگ بطور نشہ کے بھی استعمال کرتے ہیں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ تریاق کی فصل کی کاشت اور اس کی خرید وفروخت اور بیرونی ممالک اس کی ترسیل شرعا جائز ہے یا نہیں ؟اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہوگی یا نہیں ؟
نوٹ :بیرونی ممالک میں اکثر و بیشتر اس کا استعمال ادویہ میں کیا جاتا ہے او ریہاں پر بھی اس کا استعمال ادویہ میں ہوتا ہے،البتہ ہمارے علاقہ میں بطور نشہ بھی استعمال ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ ازروئے شرع جن اشیاء کا استعمال فی نفسہ جائز ہو تو اس کا کاروبار کرنا بھی شرعاً جائز ہوتاہے، اور جن اشیاء کا استعمال ہی شرعاً ناجائز ہو تو اس کا کاروبار کرنا بھی حرام ہے اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوتی ہے۔
صورت مسئولہ میں تریاق کی تجارت شرعا جائز ہے اور آمدنی حلال ہے ،اس لیے کہ یہ اکثر دوائیوں میں استعمال ہوتاہے ،البتہ بیچنے والے کو معلوم ہو کہ خریدار تریاق خریدنے کے بعد نشہ کے طور پر استعمال کرےگا تو جان بوجھ کر ایسے آدمی کو فروخت کرنا مکروہ ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون. قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل".
(كتاب الاشربة، ج:6، ص:454، ط:ايج ايم سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة".
(كتاب الاشربة، ج:6، ص:457، ط:ايج ايم سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار".
(فصل فى البيع، ج:6، ص:391، ط:ايج ايم سعيد)
مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’افیون، چرس، بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کا دوا میں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔ مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائزہے‘‘۔
(کفایت المفتی 9/129،ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102716
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن