بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٍتین طلاقوں کے بعد دوبارہ نکاح کی صورت / اولاد کی پروش کا حق کس کو ہے / طلاق سے مہر ساقط نہیں ہوتا


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو سخت غصے کی حالت میں مارا اور چپ ہونے کو کہا، لیکن بیوی چپ نہیں ہوئی تو اس شخص نے بیوی کو کمرے میں اور باہر نکل کر دیگر گھر والوں کو کہا کہ میں آپ لوگوں کو بھی بتاتا ہوں کہمیں نے اس کو تین بار طلاق دے دی ہے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1) اگر دونوں دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہے؟

2) ایک بیٹا سات سال کا ہے اور دوسرا بیٹا دو ماہ کا ہے، پرورش کا حق کس کو ہے؟

3) شوہر نے بیوی کا مہر ابھی تک ادا نہیں کیا ہے، کیا اس پر اس کی ادائیگی لازم نہیں؟

جواب

1) صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص نے طلاق کے جو خط کشیدہ الفاظ ادا کیے تو یہ طلاق کے اقرار پر مشتمل ہیں، لہذا اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوچکی ہے، اب نہ تو رجوع کی گنجائش ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے، مطلقہ اپنی عدت ( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، ہاں اگر مطلقہ اپنی عدت گزار کر کسی دوسرے مردسے نکاح کرے اور اس سے ازدواجی تعلق (صحبت) بھی قائم ہوجائے، پھر وہ دوسرا شوہر فوت ہوجائے یا طلاق دے دے اور اس دوسرے شوہر کی عدت بھی گزر جائے تو اس کے بعد مطلقہ کا پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا، اس سے پہلے دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں ہے۔

2) جس بیٹے کی عمر سات سال ہے اس کی پرورش کا حق باپ کو ہے اور جو بیٹا دو ماہ کا ہے، سات سال کی عمر تک اس کی پرورش کا حق ماں کو ہے، سات سال کے بعد باپ اس بچے کو اپنی کفالت میں لینے کا حق دار ہوگا اور بچے کا نان نفقہ شرعاً باپ پر لازم ہے،  بچہ والدین میں سے جس کے پاس بھی ہو گا اسے شرعاً یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو بچے کے ساتھ ملنے وغیرہ سے منع کرے۔

3) اگر شوہر نے ابھی تک مہر ادا نہیں کیا تو اس پر شرعاً لازم ہے کہ وہ مہر ادا کرے، طلاق کی وجہ سے شوہر کے ذمہ سے مہر ساقط نہیں ہوتا بلکہ اور پکا ہوتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية۔"

( الفتاوي الهنديه، المجلد1، كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة و ما يتصل به، ص: 473، ط: المكتبة الرشيدية)

درِ مختار میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب۔۔۔(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية۔۔۔(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي۔"

(الدر المختار مع رد المحتار، المجلد3، كتاب الطلاق، باب الحضانة، ص: 567، ط: ايچ ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي۔"

(الفتاوي الهندية، المجلد1، كتاب الطلاق، الباب السادس في الحضانة، فصل مكان الحضانة، ص: 543، ط: المكتبة الرشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع۔"

(الفتاوي الهندية، المجلد1، كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيمايتاكد به المهر، ص: 304، ط: المكتبة الرشيدية)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144305100408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں