بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

تین طلاقوں سے مغلظہ بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق رکھنے کا حکم


سوال

میرے بھائی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، طلاق کے معاملہ میں میرے بھائی آپ کے دار الافتاء بھی حاضر ہوئے تھے، انہوں سوال پوچھا تھا اور آپ کی طرف سے جواب آیا کہ طلاق مغلظہ ہوگئی ہے، اب دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہے، فتوی نمبر: 144605101151۔

لیکن اس کے باوجود میرے بھائی اپنی  مطلقہ بیوی کے ساتھ رہ رہے ہیں، اور آپ کے فتوی کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ 

اب سوال یہ ہے کہ  کیا بھائی کا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ اگر بھائی ہماری بات نہ مانیں اور مطلقہ بیوی کے ساتھ ہی رہتے رہیں تو پھر  ہمارے لیے بھائی کے ساتھ تعلقات رکھنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  آپ کا بھائی واقعۃً اپنی مطلقہ مغلظہ بیوی کے  ساتھ رہ رہا ہے اور  شرعی حکم معلوم ہونے کےبعد بھی اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم   رکھ رہا ہے،تو  وہ حرام کاری میں مبتلا ہے ، زنا کا ارتکاب کررہا ہے،اور سخت گناہ گار ہے،  اس کو چاہیے کہ وہ فوراً علیحدگی اختیار کرے، اور اپنے  اس عمل سے باز آجائے اور اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے،باقی آپ  لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کو مذکورہ عمل سے روکیں ، اگر وہ پھر بھی اپنے عمل سے توبہ تائب نہیں ہوتا تو آپ لوگ اس  سے بائیکاٹ کرلیں، تاکہ اس کو اپنے گناہ اور غلطی کا احساس ہوجائے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]          

ترجمہ:”پھر اگر کوئی(تیسری)طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک وہ اس کے سوا ایک خاوند کے ساتھ(عدت کےبعد)نکاح کرلے۔“ (از بیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا ‌وطئ ‌المطلقة ‌ثلاثا في العدة؛ فلأن النكاح قد زال في حق الحل أصلا؛ لوجود المبطل لحل المحلية وهو الطلقات الثلاث، وإنما بقي في حق الفراش والحرمة على الأزواج فقط فتمحض الوطء حراما فكان زنا فيوجب الحد."

(كتاب الحدود، فصل في بيان أسباب وجوب الحدود،  7/ 36، ط: دار الكتب العلمية)

فتح الباری میں ہے:

"(قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)

أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/ 497، ط: دارالمعرفة)

مرقات المفاتیح میں ہے:

"قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه ،وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه في التهاجر والتقاطع واتباع العورات، 8/ 3146، ط: دارالفكر)

عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع  عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله فأعلمه فعاد إليهم".

(عارضة الأحوذی لابن العربی المالکی، أبواب البر والصلة، 8/116، ط: دارالکتب العلمیة)

عون المعبود میں ہے: 

"(‌فوق ‌ثلاث ليال) أي بأيامها وإنما جاز الهجر في ثلاث وما دونه لما جبل عليه الآدمي من الغضب فسومح بذلك القدر ليرجع فيها ويزول ذلك العرض ولا يجوز فوقها وهذا فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(كتاب الأدب، باب في هجرة الرجل أخاه، 13/ 174، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”عبد المتین اپنے سالے کی بیوی کو بھگا کر اپنے گھر لے گیا، مگر ان کے خسر یا سالے وغیرہ کوئی اعتراض نہیں کرتے ، برابر اس کی خاطر تواضع داماد جیسی ہی کیا کر تے ہیں ،عبدالمتین کے خسر کے گھر والے بھی کھاتے پیتے ہیں ،لہذا اس زنا بالجبر کے کتنے لوگ گنہگار ہیں؟ 

الجواب حامداً ومصلياً:

زنا کرنے کا گنہ گارتو زانی ہی ہے ، اگر اس کی کسی نے اس زنامیں مدد کی ہے ،تو مد دکا گنہ گار وہ بھی ہے،جوشخص اس کے فعل سے خوش ہے ، خوش ہونے کا گنہ گار وہ بھی ہے،جوشخص اس سے روک سکتا ہے اگر روکتا نہیں ہے،تو نہ روکنے کا گناہ گاروہ بھی ہے ۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔“

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب المعاصی والتوبۃ،ج:24، ص:262/263، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں