میرا مسئلہ بڑا گھمبیر ہے اور پیچیدہ قسم کا ہے ، میرے شوہر نے مجھے دو بار طلاق دی تھی 2019 میں ۔اس کے بعد ہمارا تجدیدِ نکاح ہوا اس کے بعد میرے شوہر نے 14،اکتوبر 2020 کی رات کو ایک بار طلاق کا لفظ اپنی زبان سے ادا کیا ، ہم نے بستر الگ کرلیا تھا اس کے بعد، پھر ہم نے شرعی اور قانونی طریقہ سے رشتہ کو جاری رکھنے کے لیے ایک مفتی صاحب سے رابطہ کیا ،ا ن سے تفصیلات معلوم کیں ، علاقہ کی مسجد میں جاکر معلوم کروایا، ان سب صاحبان نے یہ ہی کہا کہ طلاق رجعی ہوئی ہے، رجوع کی گنجائش ابھی باقی ہے۔میں اور میرے بھائی نے صلح کرنے کی پوری کوشش کی ، صلح ہو بھی جاتی، لیکن اسی دوران میرے شوہر نے اپنے ہاتھ سے سادہ کاغذ پر تین بار پھر سے طلاق لکھ کر دے دی، اب پھر میرے شوہر رجوع کا معلوم کرنا چاہتے ہیں ،بتائیں شرعًا طلاق ہوگئی یا اب بھی گنجائش باقی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے 2019 میں جو دو طلاق دی تھیں ، اگر ان دوطلاق کی عدت میں رجوع کرلیا تھا، یا عدت کے بعد نکاح کی تجدید کی تھی تو 14اکتوبر 2020 کو دی جانے والی ایک اور طلاق سے سائلہ پر 14 اکتوبر 2020 کو تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی اور سائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی اور اس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی گنجائش ہے ۔عدت گزر چکی ہے تو سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
اس کے بعد سائلہ کے شوہر نے کاغذ پر جو تین طلاقیں لکھیں ، ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی؛ کیوں کہ سائلہ پر پہلے ہی تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا."
(کتاب الطلاق باب الرجعۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۷۳،دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200824
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن