محمد ثقلین ولد مقبول حسین نے ان الفاظ میں بیان دیا ہے کہ :میں نے اپنی بیوی کو آڈیو کال پر طلاق دی، طلاق دیتے وقت میں غصہ کی حالت میں تھا، آڈیو کال پر میں نے کہا کہ:’’ تجھے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ ، تین مرتبہ کہا، لیکن میری بیوی نے دو مرتبہ سننے کے بعد کال کاٹ دی ، اب ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد محمد ثقلین کو پچھتاوا ہوا اور وہ اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
کیا اس کے لیے شریعت میں کوئی گنجائش یا کوئی حل ہے؟ ازراہ ِکرم مذکورہ مسئلے میں رہنمائی فرمائیں اور جواب بحوالہ نقل فرمادیجیے۔
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو ان الفاظ سے طلاق دی ہے کہ :"تجھے طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے"، اگرچہ بیوی نے صرف دو الفاظ سنے تھے ، لیکن شوہر نے تینوں طلاقیں دی ہیں تو ان الفاظ کی ادائیگی سے مذکورہ شخص کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں ،مذکورہ عورت تین طلاقوں کے بعد اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں،اب دوبارہ ساتھ رہنے یا تجدید نکاح کی گنجائش نہیں ۔
البتہ اگر مذکورہ عدت گزارنے کے بعد عورت کسی دوسری جگہ شریعت کے مطابق نکاح کر ے اور دوسرا شوہر ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے اور پھر مذکورہ عورت شرعی عدت گزارلے تو اس کے بعد سابقہ شوہر کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہوگی ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
" فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ .{سورة البقرة : الآية : 230}
ترجمہ:
’’ پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ ( عدت کے بعد ) نکاح کرلے۔ پھر اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جائیں ۔ شرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہیں کہ ( آئندہ) خدا وندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں ۔ حق تعالٰی ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو دانش مند ہیں ۔‘‘
(از بیان القرآن ، ج:1، ص:162، ط: دار الاشاعت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي..."
(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق...، ج: 1، ص: 348، ط: دارالفكر)
وفيه أيضا:
"وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدة وكذا إذا قال أنت طالق فطالق فطالق أو ثم طالق ثم طالق أو طالق طالق كذا في السراج الوهاج."
(كتاب الطلاق، الباب الثاني في ايقاع الطلاق ، ج: 1، ص: 355، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وركنه لفظ مخصوص خال عن الاستثناء ..."[وفي رد المحتار:]" (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر..."
(كتاب الطلاق، ج: 3، ص : 230، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"(لا) ينكح (مطلقة) من نكاح صحيح نافذ كما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول، وما في المشكلات باطل، أو مؤول كما مر (حتى يطأها غيره ولو) الغير (مراهقا) يجامع مثله، وقدره شيخ الإسلام بعشر سنين و خصيا،، أو مجنونا، أو ذميا لذمية (بنكاح) نافذ خرج الفاسد والموقوف، فلو نكحها عبد بلا إذن سيده ووطئها قبل الإجازة لا يحلها حتى يطأها بعدها."
(كتاب الطلاق، باب الرجعة ، ج: 3، ص: 411، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101020
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن