بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجھے چھوڑدیا/ تم آزاد ہو اور تجھے پہلی طلاق دیتاہوں کہنے کا حکم


سوال

 شوہر اگر بیوی  سے کہے:  میں نے  تجھے  چھوڑ  دیا، اس سے کون سی طلاق  واقع  ہو گی؟ اس کے تین چار سال بعد شوہر نےبیوی کو کہا:  تم آزاد ہو، اس کے کچھ دن بعد کہا: میں تجھے  پہلی طلاق دیتا ہوں، ایک دفعہ میسج پر بھی آزاد ہو کہا، اب کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ  شوہر کا پہلی دفعہ کہنا کہ”میں نے تمھیں چھوڑدیا“ یہ جملہ بمنزلہٴ طلاق صریح کے ہے اور اس سے  ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھی، اس کے بعد  اگر شوہر نے دورانِ عدت رجوع کیا تھا تو نکاح برقرار تھا، اگر رجوع نہیں کیا تھا تو عدت ختم ہونے کے بعد نکاح ٹوٹ چکاتھا، عدت کے دوران رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس مزید دو طلاقوں کا اختیار تھا،  پھر جب  شوہرنے  تین چار سال بعد یہ جملہ کہا: " تم آزاد ہو" تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی، نکاح ٹوٹ چکاتھا، اس کے بعد اگر گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرلیا تھا تو شوہر کے پاس صرف ایک ہی طلاق کا اختیار تھا، نیز نکاح  کے بعد شوہرکا مزید  کہنا کہ میں تمہیں پہلی طلاق دیتاہوں تو یہ پہلی طلاق شمار نہیں ہوگی، بلکہ اس سے تیسری طلاق  واقع ہوگئی تھی، اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی تھی، اس کے بعد دونوں کا ساتھ میں رہنا ہی درست نہیں تھا، اور اگر  طلاق بائن کے بعد شوہرنے نکاح نہیں کیا تھا، لیکن عدت کے دوران ہی میسج پر "تم آزاد ہو" کہا تو اس کہنے سے تیسری طلاق واقع ہوگئی تھی، اور بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی۔ اب رجوع یا تجدیدِ نکاح کی اجازت نہیں ہوگی۔

اور اگر "تم آزاد ہو" والا میسج عدت گزرنے کے بعد  کیا اور نکاح کی تجدید بھی نہیں کی تھی  تو صرف ایک ہی طلاق واقع ہوئی تھی، یا  پہلی طلاق کے بعد تو رجوع کرلیا تھا ، لیکن "تم آزاد ہو" والا میسج کرنے کے بعد عدت گزار کر "تمہیں پہلی طلاق دیتاہوں" کہا تو اس سے مزید طلاق واقع نہیں ہوگی، اس صورت میں ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وإذا قال: رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:299، ايج ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والطلاق البائن يلحق الطلاق الصريح بأن قال لها أنت طالق ثم قال لها أنت بائن تقع طلقة أخرى."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:372/73/77، ط:رشيديه)

ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

(الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية)

 فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144203200929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں