بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تلاوت قرآن کے ایصال ثواب کا احادیث سے ثبوت


سوال

قرآن مجید پڑھ کر میت کوایصال ثواب کر ناجس حدیث سے ثابت ہے اس کا حوالہ دركار هے۔

جواب

واضح رہے کہ جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کے نزدیک قرآن مجید پڑھ کر میت کو ایصالِ ثواب  کرنا جائز اوردرست ہے، ذخیرہ احادیث میں متعدد روایات ایسی موجود ہیں جن میں میت تک اعمال خیرکا ثواب پہنچنا اور پہنچانا ثابت ہے،اور اعمالِ خیر میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔حضرت معقل ابن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم اپنے مرحومین پر سورہ یاسین پڑھاکرو۔"

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن معقل بن يسار، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:  اقرءوا يٰس على موتاكم ."

(كتاب الجنائز، باب القرأة عند الميت، رقم الحديث:3121، ج:3، ص:191، ط:المكتبة العصرية بيروت)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے قبروں پر جاکر سورہ یاسین پڑھی اللہ تعالی (اس یسین پڑھنے کی برکت سے)ان قبروالوں کےساتھ  (حساب و کتاب) میں تخفیف کا معاملہ فرمائے گا،اور اس پڑھنے والے کے لیے بھی اس کے بقدر نیکیاں ملیں گی۔

شرح الصدور للسیوطی میں ہے:

"عن أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم وكان له بعدد من فيها حسنات."

(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، ص:303، ط:دار المعرفة)

مرحومین کے ایصال ثواب کے بارے میں وہ دیگر روایات جن میں قرآن مجید کے علاوہ دیگر اعمال کا ثواب میت تک پہنچانا ثابت ہے، ان روایات سے بھی تلاوت قرآن کے ایصال ثواب کا ثبوت ہوتا ہے، کیوں کہ ان روایات میں ذکر کردہ اعمال کی طرح قرآن مجید کی تلاوت بھی اعمال خیر میں داخل ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے،  اور جن دونوں (والدین) کی طرف سے حج کیا گیا ہے انہیں کامل حج کا ثواب ملتاہے، نہ حج کرنے والے کے  اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے اور نہ ہی جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے ان کے اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔

شعب الإيمان للبيهقي  میں ہے:

"عن عبد العزيز بن عبد الله بن عمر، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حج عن والديه بعد وفاتهما كتب له عتق من النار، ‌وكان ‌للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غير أن ينقص من أجورهما شيئ ".

( شعب الإیمان ،باب بر الوالدين، ج:10 ، ص:304ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

ایک دوسرے روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہےکہ : جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو؛ کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً". رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف".

(مجمع الزوائد، باب الصدقة علی المیت، ج:3، ص:138، ط: دار الكتب العلمية بيرت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں