بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلسمات سے علاج کا حکم


سوال

بہت سے عاملین اس طلسم سے کام لیتے ہیں،  ان کے دو پہلو ہوتے ہیں:  کچھ لوگ بیماری کے لیے استعمال کرتے ہیں  اور انتہائی زیادہ اثر ہوتا ہے  اور بندہ ٹھیک ہو جاتا ہے یا کچھ دنوں میں اگر اللہ چاہے۔ اور کچھ لوگ اسے عشق معشوقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی بندہ جائز مقصد کے لیے استعمال کرے تو اس میں گناہ ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں طلسم ،علم الاعداد کے قبیل سے ہے ،ہمارے کابرین کے فتاویٰ کے مطابق یہ علم توجہ الی غیر اللہ اورانسان کے عقیدے کی خرابی کا باعث ہے،اس لیےشریعت  نے اس کے حصول کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے۔

باقی چوں کہ  انتہائی  شدید مجبوری   کی صورت،  کہ اس کے علاوہ علاج کی کوئی صورت کارگر نہ ہو اور جان کا خطرہ ہو، میں   حرام چیز سے  علاج  مباح ہوجاتا ہے،لہذا  اگر یہ محض ظاہری اسباب کے طور پراستعمال کیا جائے،جائز طریقے پر اور جائز مقصد کے لیے ہو تو یہ مباح  ہوگا،مگر  چوں کہ عمومًا لوگ صحیح معنوں میں اس سے واقف نہیں ہوتے اور دھوکا  وجعل سازی سے ہی کام لیتے ہیں،اس لیے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

" وحراما، وهو علم الفلسفة والشعبذة والتنجيم والرمل وعلوم الطبائعيين والسحر والكهانة، ودخل في الفلسفة المنطق، ومن هذا القسم علم الحرف

(قوله: علم الحرف) يحتمل أن المراد به الكاف الذي هو إشارة إلى الكيمياء، ولا شك في حرمتها لما فيها من ضياع المال والاشتغال بما لا يفيد. ويحتمل أن المراد به جمع حروف يخرج منها دلالة على حركات. ويحتمل أن المراد علم أسرار الحروف بأوفاق الاستخدام وغير ذلك. اهـ. ط. ويحتمل أن المراد الطلسمات، وهي كما في شرح اللقاني نقش أسماء خاصة لها تعلق بالأفلاك والكواكب على زعم أهل هذا العلم في أجسام من المعادن أو غيرها تحدث لها خاصة ربطت بها في مجاري العادات. اهـ."

(مقدمہ،ج1،ص45،ط؛سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"جفر،طلسمات اور حاضرات کا حکم

(جواب62)طلسمی انگشتری اور فلیتے اور گنڈے طلسمات حاضرات وغیرہ یہ سب چیزیں اگر محض ظاہر ی اسباب کے طور پر استعمال کی جائیں اور حقیقۃً وہ صحیح بھی ہوں تو مباح ہیں،مگر جہاں تک تجربہ ہے یہ تمام چیزیں محض بناوٹی ہوتی ہیں،الا ماشاء اللہ،ہزاروں میں کوئی ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو صحیح طور پر ان چیزوں سے واقف ہو اور دھوکہ دیے بغیر عمل میں لاتا ہو تو ممکن ہے اس کی دی ہوئی چیزیں کچھ مفید ہوں،ورنہ عام طور پر  دھوکہ بازی اور جعلسازی ہورہی ہے اس لیے ان سے بچنا اور پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج9،ص79،ط؛دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں