بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹک ٹاک ایپ (Tik Tok Application) استعمال کرنا


سوال

 عرض ہے کہ زید فنی ،مزاحیہ اور ہنسی مزاق پر مشتمل ویڈیوز بنا کر ٹک ٹاک پر اپلوڈ کرکے پیسے کماتا ہے، اب ذیل میں درج امور کا شرعی حکم بتائیے :

1:کیا ٹک ٹاک پر مزاحیہ ،فنی اور ہنسی مذاق پر مشتمل ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کرنا جائز ہے ؟نیزاس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم بھی تحریر کیجئے۔

2: ویڈیوز بنا کر بیک گراؤنڈ میں کوئی سریلی آواز گنگناہٹ یا نعت وغیرہ اپلوڈ کرنا کیسا ہے یا کسی دوسرے شخص کی آواز کو اپنے بنائے ہوئے ویڈیوز پر فٹ کرکے پھر اپلوڈ کرنا اس کا بھی شرعی حکم بتائیے۔

3: شریعت میں ہنسی مذاق کے حدود و قیود بھی بتائیے۔

4: کسی خاص شخص،قوم یا قبیلے پر مزاحیہ ویڈیوز بنانے کا حکم بھی تحریر کیجئے۔ 

جواب

4۔2۔1:کسی شخص کا یاکسی قوم کا مذاق اڑانا:ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے، عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے،مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے،اس تضحیک آمیزرویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں،چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں ، دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا  ہے، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا ہےاور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے،یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں، لہذا کسی بھی مقصد کے لیےٹیک ٹاک کی  ایپلی کیشن کا استعمال جائز نہیں ہے۔

مزید یہ کہ ٹک ٹاک ایپ (tik tok app) کے استعمال میں زیادہ تر غیر شرعی کاموں (جیسے نامحرم کی تصاویر٬ ویڈیوز٬ میوزک٬ فحاشی پھیلانے اور غیر شرعی طنز و مزاح وغیرہ) کا ارتکاب کیا جاتا ہے٬   ٹک ٹاک دورِ حاضر میں بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا ایک انتہائی خطرناک فتنہ ہے، اس ایپ کا شرعی نقطہ نظر سے استعمال قطعاً حرام اور ناجائز ہے، اس کے چند مفاسد درج ذیل ہیں:

1۔۔ اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی  ہوتی ہے، جو شرعاً حرام ہے۔

2۔۔اس میں عورتیں انتہائی بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی  ہیں۔

3۔۔ نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔

4۔۔ میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔

5۔۔ مرد وزن  ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔

6۔۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔

7۔۔ وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔

8۔۔ علماء اور مذہب کے مذاق اور استہزا  پر مشتمل ویڈیو اس میں موجود ہیں۔ بلکہ ہر چیز کا مذاق اور استہزا  کیا جاتا ہے۔

9۔۔ نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا  تک نہ کرے۔

یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں، لہذا کسی بھی مقصد کے لیے اس ایپلی کیشن کا استعمال جائز نہیں ہے، اور اس ایپ کے ذریعے پیسے کمانا بھی ناجائز اور حرام ہے

واضح رہے کہ  ایڈ کے  ذریعہ کمائی  کی صورت  شرعًا اجارہ کا معاملہ  ہے جو   مذکورہ  ایپ اور  ویڈیو   اَپ لوڈ  کرنے والے یا  اکاؤنٹ ہولڈر   کے درمیان ہوتا ہے۔  "ایپ"     اکاؤنٹ ہولڈر  کو اس کے پیج/ چینل وغیرہ  کے استعمال یا ویڈیو پر  (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں)   اجرت  دیتا ہے۔ یہ  اجرت  مندرجہ   ذیل خرابیوں  کی  وجہ  سے  حلال نہیں  ہے:

الف)  ایپ کو  اختیار  ہوتا ہے کہ  وہ کسی قسم كا بھی ایڈ چلائے، ان میں اکثر ایڈ   ذی  روح  کی  تصاویر  پر  مبنی  ہوتی  ہیں اور  سائل کو انہیں ایڈز کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ  تعاون على الاثم  ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہوگا اور کمائی بھی حلال  نہیں ہوگی۔

ب)  ایسی صورتوں میں عموماً اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ ایپ والے کوئی متعین اجرت نہیں طے کرتے،  بلکہ  ویڈیو ز پر چلنے والے اشتہارات کے ذریعے" اپنی کمائی" کا  خاص فیصد اجرت کے طور پر  طے کرتے ہیں اور ایپ  کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو  اس کا    وہ مخصوص فیصد بھی مجہول ہوتا ہے۔  حالانکہ چینل کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر چینل پر چلنے والے ایڈز اگر سب کے سب  شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی  مذکورہ بالا صورت میں یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔

ٹک ٹاک ایپ پر دینی و اصلاحی ویڈیوز اَپ لوڈ کرنا کئی  وجوہات کی بنا  پر ممنوع ہوگا:1-   دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت  کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنا  چاہیے جن میں گناہوں اور فتنوں میں پڑنے کا خدشہ نہ ہو؛   جب کہ اس ایپ کو استعمال  کرتے ہوئے گناہوں (بد نظری، موسیقی، ضیاع وقت وغیرہ وغیرہ) میں پڑنے کا قوی  احتمال ہوتا ہے۔2-   اگر دینی  ویڈیو میں جان دار کی تصویر  وغیرہ ہو تو یہ سراسر ناجائز ہے۔3- اگر کوئی تصویر یا موسیقی  یا کوئی اور  شرعی مانع نہ بھی ہو تو  بھی عموماً  مذکورہ ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہوئےلوگوں کا  اس  کے ذریعے  غیر شرعی امور میں وقوع کا  امکان زیادہ  ہوتا ہے، اور ان کو دینی ویڈیو دیکھنے کی ترغیب  کے ضمن میں  ایسی ایپ کے استعمال کی دعوت  شامل  ہے  جس کے مفاسد اور   برائیاں بے شمار ہیں؛ لہٰذا کسی بھی طریقے سے ایسی ایپلیکشنز کو استعمال کرنے کی دعوت نہیں ہونی  چاہیے، جب کہ  فی زمانہ  اکثر دینی بیانات کی ویڈیوز جان دار کی تصویر سے خالی نہیں ہیں اور جان دار کی تصویر پر مشتمل ویڈیو ناجائز ہے۔4- جو شخص بھی ان ایپلیکشنز  پر  اپنی ویڈیو (چاہے وہ کسی دینی مواد پر مشتمل ہو) اَپ لوڈ کرتا ہے، تو ایپ کی طرف سے اس کی ویڈیو کے ساتھ اشتہارات بھی چلائے جاتے ہیں، اور اس کے پاس ان اشتہارات کو روکنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اور ان اشتہارات میں تصاویر، موسیقی، فحاشی و عریانی  پر مبنی اشتہارات بھی بکثرت ہوتے ہیں،  بلکہ جتنا زیادہ آپ کی ویڈیو  دیکھی  جائے گی؛ اتنے ہی زیادہ مذکورہ ایپ آپ کی ویڈیو کے ساتھ اشتہارات چلا کر کمائے گی۔ تو چوں کہ  یہ اشتہارات اکثر  ناجائز امور پر مبنی ہوتے ہیں، لہٰذاکوئی بھی ویڈیو  اَپ لوڈ کرنے میں ان ناجائز امور میں تعاون پایا جاتا ہے، اس تعاون کی بنا پر بھی ویڈیو اَپ لوڈ کرنے سے گریز کرنا  چاہیے۔

3:مزاح کا شرعی حکم:

 شریعت تمام امور میں اعتدال پسند واقع ہوئی ہے، لہٰذا مزاح اور خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اورمحل کی مناسبت سے احیاناً مزاح مباح بلکہ مستحب ہےلیکن اگرمزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [الحجرات: 11]

ترجمہ:  اے ایمان والو نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے،  کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا (ہی) برا ہے۔ اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ (از بیان القرآن)

مشکاة المصابیح میں ہے:

عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”أشد الناس عذاباً عند اللہ المصورون“ ، متفق علیہ

(مشکاة المصابیح، باب التصاویر، الفصل الأول،ص ۳۸۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)

                 علامہ نووی فرماتے ہیں:

"اعلم ان المزاح المنہی عنہ ہو الذی فیہ افراط ویداوم علیہ فانہ یورث الضحک وقسوة القلب ویشغل عن ذکر اللّٰہ والفکر فی مہمات الدینِ ویوٴول فی کثیر من الاوقاتِ الی الایذاء ویورث الاحقاد ویسقط المہابة والوقار فاما من سلم من ہذہ الامور فہو المباح الذی کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفعلہ علی الندرة لمصلحةٍ تطیب نفس المخاطب وموانسة وہو سنة مستحبة․"

 (مرقاة ج۸ ص۶۱۷)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں