بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹک ٹاک آئی ڈی چلانے کا حکم


سوال

۱-  ٹک ٹاک آئی ڈی چالانا جائز ہے ؟ اور ٹک ٹاک کا حکم کیا ہے؟

۲-  تراویح کی نماز کے بعد وتر نماز میں دعائےقنوت کے بغیر رکوع میں چلا  گیا اور لقمہ دینے پررکوع سے اٹھ گیا  تو کیا  حکم ہے ؟

جواب

۱- ٹک ٹاک (Tik Tok ) سے متعلق جو معلومات دست یاب ہوئی ہیں، ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹک ٹاک (Tik Tok ) دورِ حاضر میں بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا ایک خطرناک فتنہ ہے، اس ایپ کا شرعی نقطہ نظر سے استعمال ناجائز اور حرام ہے، اس کے چند مفاسد درج ذیل ہیں:

1۔ اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی ہوتی ہے، جو شرعاً حرام ہے۔

2۔اس میں عورتیں بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی ہیں۔

3۔ نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔

4۔ میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔

5۔ مرد وزن ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔

6۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔

7۔ وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔

8۔ علماء اور مذہب کے مذاق اور استہزا پر مشتمل ویڈیو اس میں موجود ہیں، بلکہ ہر چیز کا مذاق اور استہزا کیا جاتا ہے۔

9۔ نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کی لالچ میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا تک نہ کرے۔

یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں، اور اس ایپ کو استعمال کرنے والا لامحالہ ان گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس سے بچنا تقریباً ناممکن ہے، لہذا اس ایپلی کیشن کا استعمال جائز نہیں ہے۔

۲-   وترکی نمازمیں دعائے قنوت کاپڑھناواجب ہے،اورواجب کے ترک کرنے پرسجدۂ سہوادا کرنے سے نمازہوجائے گی،لہذا اگرکوئی شخص وترکی تیسری رکعت میں سورۂ  فاتحہ اور سورت  ملانے  کے بعد رکوع  میں  چلاگیاتوآخری قعدہ میں تشہدپڑھ کرسجدۂ سہوکرنے  سے وتر کی نمازدرست ہوجائے گی،دعائے قنوت بھول جانے کی صورت میں  سجدہ سہوکی ادائیگی کے بعدوتردوبارہ لوٹانے کی ضرروت نہیں اور رکوع سے قیام کی طرف لوٹنے کی بھی حاجت نہیں، البتہ اگر اس کے باوجود رکوع کرکےلقمہ دینے پر اٹھ گیا اور دعائے قنوت پڑھ کر دوبارہ رکوع کرلیا تو آخر میں سجدہ سہو کرنے سےنماز ہوجائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو نسيه) أي القنوت (ثم تذكره في الركوع لا يقنت) فيه لفوات محله (ولا يعود إلى القيام) في الأصح لأن فيه رفض الفرض للواجب (فإن عاد إليه وقنت ولم يعد الركوع لم تفسد صلاته) لكون ركوعه بعد قراءة تامة.

(قوله: لفوات محله) لأنه لم يشرع إلا في محض القيام فلا يتعدى إلى ما هو قيام من وجه دون وجه وهو الركوع. وأما تكبيرة العيد فإنه إذا تذكرها فيه يأتي بها فيه لأنها لم تختص بمحض القيام لأن تكبيرة الركوع يؤتى بها في حال الانحطاط، وهي محسوبة من تكبيرات العيد بإجماع الصحابة، فإذا جاز واحدة منها في غير محض القيام من غير عذر جاز أداء الباقي مع قيام العذر بالأولى، بحر.

أقول: وهو مأخوذ من الحلية، وأصله في البدائع، لكن ما ذكره من أنه يأتي بتكبيرات العيد في الركوع وإن صرح به في البدائع والذخيرة وغيرهما مخالف لما صرح به صاحب البدائع نفسه في فصل العيد من أن الإمام لو تذكر في ركوع الركعة الأولى أنه لم يكبر فإنه يعود ويكبر وينتقض ركوعه و لايعيد القراءة، بخلاف المقتدي لو أدرك الإمام في الركوع وخاف فوت الركعة فإنه يركع ويكبر فيه. والفرق أن محل التكبيرات في الأصل القيام المحض، ولكن ألحقنا الركوع بالقيام في حق المقتدي لضرورة وجوب المتابعة اهـ فانظر إلى ما بين الكلامين من التدافع، وعلى ما ذكره في البدائع ثانيا مشى في شرح المنية. ثم فرق بين التكبير حيث يرفض الركوع لأجله وبين القنوت بكون تكبير العيد مجمعا عليه دون القنوت.

وأقول: قد صرح في الحلية من باب صلاة العيد، بأن ما في البدائع ثانيا رواية النوادر وأن ظاهر الرواية أنه لا يكبر ويمضي في صلاته، وصرح بذلك في البحر أيضا هناك؛ وعليه فلا إشكال أصلا، إذ لا فرق بينه وبين القنوت فافهم، والله أعلم.

(قوله: و لايعود إلى القيام) إن قلت: هو وإن لم يقنت فقد حصل القيام برفع رأسه من الركوع. قلنا هذه قومة لا قيام فيكون عدم العود إلى القيام كناية عن عدم القنوت بعد الركوع لأن القيام لازم القنوت ملزوم، فأطلق اللازم لينتقل منه إلى الملزوم ح (قوله: لأن فيه رفض الفرض للواجب) يعني وهو مبطل للصلاة على قول، وموجب للإساءة على قول آخر".

(کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:9، ط: ایج، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں