1.ایک شخص نے ایک پلاٹ 2020ء میں 20 لاکھ کا تجارت کی نیت سے خریدا تھا، اور اب تک اس کی زکات ادا نہیں کی، سوال یہ ہے کہ اب گزرے ہوئے سالوں اور اس سال کی زکات ادا کرے گا تو وہ سب اس وقت کی قیمت کے حساب سے زکات ادا کرے گا یا ہر سال کی زکات اس سال کی قیمت کے حساب سے دے گا؟
2.اگر کوئی ایک پلاٹ اپنے لیے خریدے لیکن ابھی تک اس میں نہیں رہا اور وہ پلاٹ منافع میں بک رہا تھا تو بیچ دیا، ایک سال پورا ہونے کے بعد کیا اس میں بھی زکات دینی ہوگی یا نہیں؟
1. اگرکسی شخص نے گزشتہ سالوں کی زکات ادا نہیں کی تو جس دن زکات ادا کی جائےاس دن کی جو قیمت ہے اس قیمت کا اعتبار ہو گا، یعنی گزشتہ سالوں کی زکات موجودہ ریٹ کے حساب سے ادا کی جائے گی۔
لہذا تجارتی پلاٹ کی زکات ادا کرتے وقت پلاٹ کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا، اور گزشتہ ہر سال کے بدلے اس کا ڈھائی فیصد ادا کیا جائے گا، اور اس مقدار کو اگلے سال کی زکات نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح آگے بھی کیا جائے گا، مثلاً پلاٹ کی موجودہ مالیت 100000 روپے ہے ، اور ایک گزشتہ سال کی زکات 2500 روپے دی تو اگلے سال کی زکات نکالتے وقت اس رقم کو منہا کرکے بقیہ97500 روپے کا چالیسواں حصہ زکات میں ادا کیا جائے گا۔
2.اگر یہ شخص پہلے سے نصاب کا مالک ہو اور فروخت شدہ پلاٹ کی قیمت خرچ نہ کی ہو اور زکات کی تاریخ آجائے تو اس رقم کو بھی دیگر اموال زکات کے ساتھ ملاکر زکات ادا کرنا لازم ہوگا اور اگر پہلے سے نصاب کا مالک نہ ہو اور یہ رقم نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو تو جب اس کا سال پورا ہوگا تب اس کی زکات ادا کرنا لازم ہوگا اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے یہ رقم پوری خرچ ہوگئی یا کچھ خرچ ہوگئی جس کی وجہ سے نصاب باقی نہیں رہا تو زکات واجب نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا."
(كتاب الزكاة، فصل صفة الواجب في أموال التجارة، 2/ 22، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه سواء كان المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، 1/ 175، ط: رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144411100764
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن