بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی مال ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کا وجوب / قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول


سوال

زید  کے پاس ایک کروڑ  پچاس  لاکھ کا کاروباری سامان ہے، یعنی پچاس لاکھ کے سکریپ کا سامان  اور پچاس لاکھ  گائے وغیرہ ۔ اب مذکورہ شخص  کئی سالوں سے ان کے منافع بھی حاصل کرتا رہتا ہے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ میں قرض دار ہوں اور فی الواقع اس پر قرض بھی ہے، لیکن مذکورہ چیزوں کے منافع حاصل کرتا رہتا ہے اور  لوگوں کا قرض نہیں دیتا ، اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ  شخص پر زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟ اور اس کا لوگوں کے ساتھ ٹال مٹول کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو مسلمان عاقل بالغ ہو ،اور اس  کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے  باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم   یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ  ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو اور  وہ شخص مقروض بھی  نہ ہو،یا قرض ہو مگر قرض منہا کرنے کے باوجود نصاب موجود ہو تو ایسا شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر  زکات واجب ہوتی ہے،اور اگر کسی کی ملکیت میں ضرورت اصلیہ  سے زائد نصاب کے بقدر مال تجارت ،سونا ، چاندی یا کیش رقم انفرادی یا اجتماعی طور پر  موجود نہ ہو  یا اتنا مال تو موجود ہو لیکن اس پر اتنا قرضہ ہو کہ اگر قرضہ کی رقم منہا کی جائے تو نصاب سے کم مال باقی بچے تو ایسے  شخص پر زکوۃ واجب نہیں ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ  شخص کے پاس ایک کروڑ پچاس لاکھ  روپے کی مالیت کا تجارتی مال (سکریپ اور  جانور وغیرہ)  موجود ہے  لیکن اس پر اتنا زیادہ قرضہ ہے کہ اگر قرضہ کی رقم منہا کی جائے تو  نصاب ( ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت)  سے کم رقم  باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے، البتہ اگر قرضہ کی رقم منہا کرنے کے بعد   نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ  مالیت  کا مال باقی بچتا ہے تو اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی، زکوٰۃ لازم ہونے کی صورت میں زکوٰۃ نہ دینا کبیرہ گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار لازم ہے، اور اس کے ساتھ گزشتہ سب سالوں کی زکوٰۃ لازم ہوگی۔

باقی قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا  ظلم ہے، ایسے شخص کے بارے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہیں، لہذا  مذکورہ شخص کو چاہیے کہ جس قدر جلد ہوسکے اپنے قرضہ کو ادا کردےتاکہ آخرت میں پریشانی نہ ہو۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌مطل ‌الغني ظلم، وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع."

(باب تحريم مطل الغني، وصحة الحوالة، واستحباب قبولها إذا أحيل على ملي: 3 /1197، ط:دار احیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے:

"و منها كون المال نصابا... و منها الملك التام و منها فراغ المال عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى و ثياب البدن و أثاث المنازل و دواب الركوب و عبيد الخدمة و سلاح الاستعمال زكوة .... ومنها الفراغ عن الدين.... ومنها كون النصاب ناميا."

(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، 2/ 264، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں