بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت کی نیت پلاٹ خرید کر چند سالوں بعد رہائش کی نیت کرنے کی صورت میں گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کا حکم


سوال

میں نے 2006 میں ایک پلاٹ14 لاکھ روپے خرید ا تھا  کہ قیمت زیادہ ہوجائے تو اس کو فروخت کرکے دوسرا پلاٹ خرید دوں گا،کئی سال گزر گئے۔میں نےاس پر گھر بنانے کا ارادہ کیا،  لیکن گھر نہ بنا سکا۔اس پر زکات کس طرح  ہوگی گزشتہ سالوں  میں پلاٹ کی قیمت مجھے معلوم نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  جب آپ نے مذکورہ مکان اس نیت سے لیا تھا کہ ”قیمت زیادہ ہوجائے تو اس کو فروخت کرکے دوسرا پلاٹ خرید دوں گا“   تو یہ تجارت کی نیت تھی، جب تک یہ نیت برقرار تھی  اس وقت تک اس پلاٹ کی زکوٰۃ  لازم تھی، اور  جب  آپ نے مذکورہ  پلاٹ سے تجارت  کی نیت ختم کرکے اسے رہائش کے لیے گھر بنانے کا ارادہ کرلیا تو   اس صورت میں یہ مالِ  تجارت سے نکل جائے گا اور اس کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

جن سالوں میں تجارت کی نیت تھی ان سالوں کی زکوٰۃ اگر ادا نہیں کی تھی تو اب اس کی زکوٰۃ  نکالنا لازم ہوگا، اگر صحیح قیمت معلوم نہ ہو تو اندازہ کرکے کچھ اس سے زیادہ کرکے  زکوٰۃ کا حساب کرلیں اور اس سے اگلے سال  کا حساب کرتے ہوئے  پہلے سال کی جو زکوٰۃ  نکالی ہے اس رقم کو  نکال دیں، اسی طرح آگے تک کرتے رہیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 272):

"(لايبقى للتجارة ما) أي عبد مثلاً (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لايصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلاتتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها.
(قوله: أي عبد) خصه بالذكر ليناسب قوله فنوى خدمته، وأشار بقوله مثلا إلى أن العبد غير قيد، لكن الأولى أن يقول بعده فنوى استعماله ليعم مثل الثوب والدابة، ولا بد من تخصيصه بما تصح فيه نية التجارة ليخرج ما لو اشترى أرضا خراجية، أو عشرية ليتجر فيها فإنها لا تجب زكاة التجارة كما يأتي ونبه عليه في الفتح، (قوله: فنوى بعد ذلك خدمته) أي، وأن لايبقى للتجارة لما في الخانية عبد التجارة: إذا أراد أن يستخدمه سنتين فاستخدمه فهو للتجارة على حاله إلا أن ينوي أن يخرجه من التجارة ويجعله للخدمة. اهـ. (قوله: ما لم يبعه) أي أو يؤجره كما في النهر وغيره، وبدله من قسم الدين الوسط فيعتبر ما مضى أو يعتبر الحول بعد قبضه على الخلاف الآتي في بيان أقسام الديون (قوله: بجنس ما فيه الزكاة) فلو دفعه لامرأته في مهرها أو دفعه بصلح عن قود أو دفعته لخلع زوجها لا زكاة لأن هذه الأشياء لم تكن جنس ما فيه الزكاة ط (قوله: والفرق) أي بين التجارة حيث لاتتحقق بالفعل وبين عدمها. بأن نواه للخدمة حيث تحقق بمجرد النية ط (قوله: فيتم بها) لأن التروك كلها يكتفى فيها بالنية ط. ونظير ذلك المقيم والصائم والكافر والعلوفة السائمة، حيث لايكون مسافرًا ولا مفطرًا ولا مسلمًا ولا سائمةً ولا علوفةً بمجرد النية وتثبت أضدادها بمجرد النية زيلعي، لكن صرح في النهاية والفتح بأن العلوفة لاتصير سائمةً بمجرد النية بخلاف العكس. ووفق في البحر بحمل الأول على ما إذا نوى أن تكون السائمة علوفةً، وهي باقية في المرعى إذ لا بد من العمل، وهو إخراجها من المرعى لا العلف، وحمل الثاني على ما إذا نوى بعد إخراجها منه."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201000

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں