اپنا کاروبار کرنا چاہیے یا ملازمت ؟
آمدنی کے بنیادی ذرائع تین ہیں :
(1)تجارت، (2) زراعت ، (3) اجارہ، بعضوں نے صنعت وحرفت کو بھی اس میں شمار کیا ہے، لیکن حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، میرے نزدیک وہ ذرائعِ آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا، میرے نزدیک صحیح نہیں، اس لیے کہ نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں ہے، کیوں کہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا بنا کر کوٹھی بھر لے، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟ یا تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اس کا (مال)بنائے۔ یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آگئے۔"
ان میں سے اگر ملازمت دینی کاموں کی ہو (مثلًا امامت، تدریس وغیرہ)، اور دین کا کام ہی مقصود ہو اور تنخواہ صرف بدرجہ مجبوری تو یہ سب سے افضل ہے، اس ملازمت کے علاوہ باقی تمام ذرائع آمدن میں سے سب سے افضل ”تجارت“ (اپنا کاروبار)ہے، اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔(از فضائلِ تجارت)
اس سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کے ماہنامہ رسالہ ”بینات“ کا مضمون ملاحظہ فرمائیں :
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206201537
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن