بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی قرضوں کی زکات کا حکم


سوال

 کیاتجارتی قرضوں پرزکوۃ واجب ہوتی ہے؟

جواب

آدمی کی جو رقم واجب الوصول تجارتی قرض کے طور پر گاہکوں کے ذمہ لازم ہوتی ہے، اس کاحساب کر کے اس تجارتی قرض کی رقم کی زکات ادا کرنا لازم ہے،اگر ہرسال زکات  کی ادائیگی کے دن اس رقم کی زکات ادا کردی جائے یہ بھی درست ہے، اس صورت میں رقم کے وصول ہونے پر دوبارہ زکات کی ادائیگی لازم نہ ہوگی۔ اور اگر فوری طور پر اس رقم کی زکات ادا نہ کی جائے تو جیسے ہی وہ رقم وصول ہوگی اس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی ادا کرنا لازم ہوگی۔

جو تجارتی قرض آدمی کے ذمہ واجب الادا  ہوں یعنی آدمی نے جو قرضے لوگوں کو ادا کرنے ہوں تو زکات کی ادائیگی کے وقت اس رقم کو کل مالیت سے مہنا کیا جائے گا، اگر کوئی شخص طویل المیعاد قرض لیتا ہے، جیسے حکومتی قرض یابینکوں سے قرض لے کر قسطیں اداکرتاہے ،تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ ہر سال دیگر قابلِ زکات اموال کی زکات  کی ادائیگی کے وقت اس سال  واجب الادا قرضہ (یعنی مکمل قرضہ میں سے جتنی مقدار ادا کرنا اسی سال اس کے ذمہ پر ہو اس) کے بقدر  منہا کر کے باقی  رقم اور اموالِ تجارت کی زکات ادا کی جائے گی بشرطیکہ باقی مال  نامی (سونا چاندی، نقدی، مالِ تجارت یا خام مال) نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) تک پہنچ رہا ہو۔ حاصل یہ ہے کہ طویل المیعادبھاری قرضوں کی کل رقم کو  زکات کی ادائیگی کے وقت منہا نہیں کیاجائے گا،بلکہ ایک سال کی اقساط جواداکرنی ہیں وہ منہاکی جائیں گی۔

 لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ  واجب الوصول اور واجب الادا قرضوں کا مکمل حساب کر کے اس میں سے اسی سال واجب الادا  قرضوں کو منہا کر کے باقی مالیت کی زکات ادا کردے۔

 نوٹ: بینک سے قرض(لون) لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے، جس  کا لینا ، دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں  سودی معاملات کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے اس سے احتراز  لازم اور ضروری ہے،انجام کے لحاظ سے سودی قرضہ کاروبار میں ترقی کے بجائے تنزلی کا ذریعہ بنتاہے، لہذااپنی وسعت کے مطابق کام کرناچاہیے، تجارت  کے  لیے  سودی قرضہ  ہرگز نہیں لیناچاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 305)

(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166):

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاً حرام.

(قوله: كل قرض جر نفعاً حرام) أي إذا كان مشروطاً".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں