بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت میں لگائی ہوئی رقم کی وجہ سے صاحبِ نصاب ہونے کاحکم


سوال

زید اور عمر نے ایک مشترکہ (برگر اور فرائز ) کا کاروبار شروع کیا ،جس کے لیے زید نے عمر کو کل رقم کا ۳۰ فیصد (۳۰۰۰۰۰) روپے دیے، جس کے عوض زید کو ہر ماہ کل آمدن کا ۳۰ فیصد حصہ ملتاہے،جوکہ ہر ماہ عمر زید کو دیتاہے،اس کی صورت یہ ہے کہ زید نے عمر کو جو ۳۰ فیصد رقم دی ہے،وہ کاروبار میں استعمال ہونے والی مشینری ،دکان کے ڈیکوریشن وغیرہ کی مد میں استعمال ہوئے،اب سوال یہ ہے کہ زید نے عمر کو جو رقم دی ہے اس کوہم مند رجہ ذیل صورتوں میں سے کس صورت میں شمار کریں گے؟

۱۔سامانِ تجارت میں شمار کریں گے؟اگر سامان تجارت میں شمار کریں گے تو کیا زید اس صورت میں مستحقِ زکات ہوگا؟اس کو زکات  دی جاسکتی ہے؟

۲۔مشینری اور ڈیکوریشن کی مد میں شمار کریں گے؟اگر مشینری اور ڈیکوریشن کی مد میں شمار کریں گے تو کیا زید اس صورت میں مستحقِ زکات ہوگا؟اس کو زکات دی جاسکتی ہے؟

۳۔زید کی ذاتی رقم میں شمار کریں گے؟اگرزید کی ذاتی رقم میں شمار کریں گےتو  کیا زید اس صورت میں مستحقِ زکات ہوگا؟اس کو زکات دی جاسکتی ہے؟

نوٹ: یہ بات زیرِ غور رہے کہ عمر کی حالت اس وقت ایسی ہے کہ اس کا کاروبار ختم ہوگیاہے،اور وہ لوگوں کے لاکھوں روپوں کا مقروض ہے جو کہ اس کے دست وگریباں ہیں ،ایسی حالت میں زید کے لگائے ہوئے پیسوں کا واپس ملنا نا ممکن ہے،لیکن عمر زید کو پیسے دینے سے منع نہیں کررہااور پیسے دے بھی نہیں سکتا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید نے عمر کو کاروبار کے لیے کل سرمایہ کا 30فیصد ـ(300000روپے) دیے ،جس کے عوض عمر زید  کو ہر ماہ مقررہ پیسے دیتارہا،اور زید کی رقم کاروبار میں مشینری اور ڈیکوریشن کی مَد میں استعمال ہوئی،پھر کاروبار ختم ہوگیا ،اور  عمر اس قدر مقروض ہے کہ لوگوں کے قرض کے ساتھ ساتھ زید کا قرض بھی ہے،اور اس قرض کے واپس  ہونے کی  زید کو کوئی امید نہیں ہے؛لہٰذا ایسی صورت  میں اگر زید کے پاس مذکورہ رقم کے علاوہ بقدرِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر) مال موجود ہےیا وہ سید /ہاشمی ہے تو زید مستحق ِزکات نہیں ہے،او ر اگر مذکورہ رقم کےعلاوہ زید کےپاس بقدرِنصاب مال موجود نہیں اور وہ سید/ہاشمی نہیں  تو اس صورت میں زید مستحقِ زکات ہے۔ 

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ويشترط أن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه وذلك مثل مال الضمار كذا في التبيين وهو كل ما بقي أصله في ملكه ولكن زال عن يده زوالا لا يرجى عوده في الغالب كذا في المحيط، ومن مال الضمار الدين المجحود..... وإن كان الدين على مفلس فلسه القاضي فوصل إليه بعد سنين كان عليه زكاة ما مضى في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - كذا في الجامع الصغير لقاضي خان".

(ّكتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج:1،ص:175،174،ط:الحقانية)

تبیين الحقائق میں ہے:

"ولأن السبب هو المال النامي ....... والنمو إنما يتحقق في الحول غالبا أما المواشي فظاهر، وكذا أموال التجارة لاختلاف الأسعار فيه غالبا عند اختلاف الفصول فأقيم السبب الظاهر، وهو الحول مقام المسبب، وهو النمو، وأما كونه فارغا عن الدين، وعن حاجته الأصلية كدور السكنى وثياب البذلة، وأثاث المنازل وآلات المحترفين وكتب الفقه لأهلها فلأن المشغول بالحاجة الأصلية كالمعدوم".

(كتاب الزكاة ،شرائط وجوبها،ج:1،ص:253،ط:دارالكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں