بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو الحجة 1446ھ 30 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

تجارت میں دھوکہ دہی سے کام لینا حرام ہے


سوال

ہمارا کاروبار کریانہ اور پنسار سٹور کا ہے ،جس کو میرے والد اور میرا بھائی چلاتے ہیں ،اور شام کے وقت میں بھی وہاں جاتا ہوں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد اور بڑا بھائی (مگر وہ والد کے تابع ہے) کاروبار و تجارت میں قطعی طور پر دیانت و ایمان داری سے کام نہیں لیتے، بلکہ ان کا مقصد صرف پیسہ حاصل کرنا ہے، ان کے معاملات میں خراب اشیاء خورد و نوش کو گاہک سے آنکھیں بچا کر پیک کر کے دے دینا، گھٹیا ترین کوالٹی کی اشیاء کو اچھی کوالٹی کی قیمت سے بھی چار گنا زیادہ پر بیچنا، خراب مصالحہ جات کو رنگ کر کے نیا کر کے بیچنا، پنسار کی اشیاء کی فروخت میں ہیرا پھیری کرنا، (پنسار کی اشیاء یا بوٹیوں کی شکل سے عمومی طور پر لوگ واقف نہیں ہوتے) گاہک کی اس لا علمی کا فائدہ اٹھا کر الف شے کی جگہ ج شے ڈال کر پیس کر کےدے دینا (جو اس نسخے میں لکھی ہی نہ ہو جوکہ گاہک لایا)،زائد المیعاد اشیاء کی تاریخ مٹا کر دے دینا، کسی دوائی کے ڈبے پر لکھی قیمت مٹا کر چار سے دس گنا زیادہ قیمت لینا، کیڑوں والی اجناس کو دھوکہ دہی سے پیک کر دینا، خراب اشیاء کو نقصان دہ محلول سے دھونا، اور ہر طرح کا جھوٹ بولنا یہ سب شامل ہیں ،میں عرصہ دراز سے ان حرکتوں کا مخالف رہا ہوں اور ان معاملات سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ خشیت الٰہی کی تلقین کرتا رہا ہوں حتی کہ میں نے کاروبار کو بند کرنے اور ختم کرنے کا بھی مشورہ دے دیا تھا،مگر سب بیکار اب تو میں نے جانا بھی کم کر دیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ گھر میں کھانے کی اشیاء مثلاً گوشت دالیں سبزیاں دودھ والد صاحب لاتے ہیں اور سارے گھر والے کھاتے ہیں، تو کیا ان کو منع کیا جائے کہ وہ نہ لایا کریں ایسی کمائی کی چیزیں؟ دوسرا یہ کہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جا سکتا ہے کہ وہ ان معاملات کو ترک کر دیں ؟کیا ان سے رہائش میں علیحدگی اختیار کی جائے؟ گھر میں ذرا بھی برکت نہیں سب بیمار رہتے ہیں اور کافی پیسہ دوائیوں اور علاج پر لگ جاتا ہے، میرے لیے كيا شرعی حکم ہے اور میرے والد اور بھائی کے لیے کیا حکم ہے؟ 

جواب

 واضح رہے کہ کاروبار کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ حلال کاروبار حلال طریقہ سے امانت اور دیانت کے ساتھ کیا جائے، اس میں سودی لین دین  جھوٹ ،دھوکا دہی رشوت اور ظلم سے اجتناب کیا جائے ،کوئی غیر شرعی معاملہ نہ کیا جائے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے والد اور بڑے بھائی کا امانت اور دیانت سے کام نہ لینا اور خیانت کرنا شرعا صحیح نہیں ہے،اسی طرح دھوکہ  دینا اور تجارت میں جھوٹ بولنا بھی حرام ہے، آپﷺ  کا فرمان ہے کہ جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے،اور آپ  کے لئے جائز ہے کہ اپنے والد  اور بڑے بھائی کو   اس دھوکہ دہی اور بد دیانتی اور خیانت سے روکنے كی كوشش كريں ،اور حلال طریقہ سے کاروبار کی ترغیب دیں، اگر ترغیب کے باوجود والد اور بھائی اپنا طریقۂ کاروبار شرعی اصولوں کےمطابق نہ کریں اور دھوکہ دہی، جھوٹ خیانت سے کام لیتے رہیں اور آمدن کا صرف یہی ذریعہ ہو تو ایسی صورت میں آپ اپنی رہائش اور کاروبار الگ کرسکتے ہیں۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"وإن جاهداك عطف على قوله ان اشكر على أن تشرك بي ما ليس لك به علم باستحقاق الإشراك يعنى فكيف وأنت تعلم بطلان الإشراك بالادلة القاطعة فلا تطعهما فى ذلك فان حق الله غالب على حق كل ذى حق قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌لاطاعة ‌للمخلوق فى معصية الخالق- رواه احمد والحاكم وصححه عن عمران والحكيم ابن عمرو الغفاري وفى الصحيحين وسنن ابى داؤد والنسائي عن على نحوه وصاحبهما في الدنيا صحابا معروفا يرتضيه الشرع والعقل."

(سورة لقمان، ج:7، ص:256، ط:المکتبة الرشیدیة،الباكستان)

مسلم شریف میں ہے:

"وحدثني يحيى بن أيوب، وقتيبة، وابن حجر جميعا، عن إسماعيل بن جعفر . قال ابن أيوب: حدثنا إسماعيل قال: أخبرني العلاء ، عن أبيه ، عن أبي هريرة « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء، يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ من غش فليس مني»."

(کتاب الإیمان،باب قول النبی ﷺ من غشنا فلیس منا،ج:1،ص:69،رقم الحدیث:102،ط:دار طوق النجاة)

بخاری شریف میں ہے:

":حدثنا سليمان بن حرب: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن صالح أبي الخليل، عن عبد الله بن الحارث: رفعه إلى حكيم بن حزام رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌البيعان ‌بالخيار ما لم يتفرقا، أو قال: حتى يتفرقا، فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما)."

(کتاب البیوع،باب اذا بین البیعان،ج:2،ص:732،رقم الحدیث:1973،ط:دارابن کثیر)

البحرالرائق میں ہے:

"‌كتمان ‌عيب ‌السلعة ‌حرام وفي البزازية وفي الفتاوى إذا باع سلعة معيبة عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. وقيده في الخلاصة بأن يعلم به."

(کتاب البیوع،باب خیارالعیب،ج:6،ص:38،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام(قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اهـ

قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة، بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة، وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر."

(کتاب البیوع،باب خیارالعیب،ج:6،ص:47،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں