بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت کی نیت سے لیے گئے پلاٹ میں نیت تبدیل کرنا


سوال

میں نے پنشن کی رقم سے پلا ٹ خریدا کہ اس کوفروخت کرکے دوسرا پلاٹ خریدوں گا، میرے پاس زکاۃ ادا کرنے کے پیسے  نہیں ہیں، کیا میں نیت بدل سکتا ہوں کہ میں پلاٹ نہیں فروخت کرتا، تاکہ زکات دینے سے بچ جاؤں؟  اب فروخت نہیں کروں گا،  اس طرح پڑا رہے۔کیا یہ بد دیانیتی تو نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ نے مذکورہ  پلاٹ سے تجارت  کی نیت ختم کرکے اسے رہائش کے لیے رکھنے کا ارادہ کرلیا ہے تو  اس صورت میں یہ مالِ  تجارت سے نکل جائے گا اور اس کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی، اور اس صورت میں  یعنی جب آپ نے واقعۃً  رہائش اختیار کرنے کی نیت کرلی ہے،  یہ بد دیانتی میں نہیں آئے گا۔

لیکن اگر آپ نے رہائش کی نیت نہیں کی، بلکہ صرف زکاۃ سے بچنے کے لیے یہ کہہ دیا کہ میں اس کو نہیں بیچوں گا، حالاں کہ آپ کا ارادہ بیچنے کا ہی ہو  تو اس سے یہ مالِ تجارت سے نہیں نکلے گا اور اس طرح کا حیلہ کرنا بھی درست نہیں ہوگا، اگر آپ کے پاس فوری پیسے نہ ہوں تو فی الوقت زکاۃ کا حساب کرکے بعد میں بھی زکاۃ ادا کرسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 272):
"(لايبقى للتجارة ما) أي عبد مثلاً (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لايصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلاتتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها.
(قوله: أي عبد) خصه بالذكر ليناسب قوله فنوى خدمته، وأشار بقوله مثلا إلى أن العبد غير قيد، لكن الأولى أن يقول بعده فنوى استعماله ليعم مثل الثوب والدابة، ولا بد من تخصيصه بما تصح فيه نية التجارة ليخرج ما لو اشترى أرضا خراجية، أو عشرية ليتجر فيها فإنها لا تجب زكاة التجارة كما يأتي ونبه عليه في الفتح، (قوله: فنوى بعد ذلك خدمته) أي، وأن لايبقى للتجارة لما في الخانية عبد التجارة: إذا أراد أن يستخدمه سنتين فاستخدمه فهو للتجارة على حاله إلا أن ينوي أن يخرجه من التجارة ويجعله للخدمة. اهـ. (قوله: ما لم يبعه) أي أو يؤجره كما في النهر وغيره، وبدله من قسم الدين الوسط فيعتبر ما مضى أو يعتبر الحول بعد قبضه على الخلاف الآتي في بيان أقسام الديون (قوله: بجنس ما فيه الزكاة) فلو دفعه لامرأته في مهرها أو دفعه بصلح عن قود أو دفعته لخلع زوجها لا زكاة لأن هذه الأشياء لم تكن جنس ما فيه الزكاة ط (قوله: والفرق) أي بين التجارة حيث لاتتحقق بالفعل وبين عدمها. بأن نواه للخدمة حيث تحقق بمجرد النية ط (قوله: فيتم بها) لأن التروك كلها يكتفى فيها بالنية ط. ونظير ذلك المقيم والصائم والكافر والعلوفة السائمة، حيث لايكون مسافرًا ولا مفطرًا ولا مسلمًا ولا سائمةً ولا علوفةً بمجرد النية وتثبت أضدادها بمجرد النية زيلعي، لكن صرح في النهاية والفتح بأن العلوفة لاتصير سائمةً بمجرد النية بخلاف العكس. ووفق في البحر بحمل الأول على ما إذا نوى أن تكون السائمة علوفةً، وهي باقية في المرعى إذ لا بد من العمل، وهو إخراجها من المرعى لا العلف، وحمل الثاني على ما إذا نوى بعد إخراجها منه". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں