بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت کے لیے پالے گئے بیلوں کی زکوۃ کا حکم


سوال

ایک شخص كے پاس تین بیل ہیں،  جن کی مجموعی قیمت وہ 50 لاکھ روپیہ بتاتا ہے،  سال میں تین چار بار وہ اپنے بیل کو ایک دوڑ میں شرکت کے  لیے اس نیت سے لے کر جاتا ہے کہ دوڑ میں موجود گاہک اس کے بیل کی اچھی قیمت لگائیں گے،  اس دوڑ کے  لیے بیلوں کو خوب کھلایا جاتا ہے اور ان کو  سال بھر مشق کرائی جاتی ہے۔ پنجاب میں بیلوں کی یہ دوڑ جلسہ کہلاتی ہے، جو کھیل تماشا کے ساتھ  ساتھ بیلوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے،  جو گاہک کسی بیل کو پسند کر لیتے ہیں  وہ  بیل والے  کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور بیل کا سودا بعض دفعہ دس دس اور بیس بیس لاکھ میں ہوتاہے۔

کیا اس شخص کے  لیے ضروری ہے کہ وہ حج پر جانے سے پہلے اپنے اس  مال ،جو کہ پالتو بیلوں کی شکل میں ہے  کی تجارتی زکاة ادا کرے؟  یہ بیل اس نے 30 سال  سے رکھے ہوئے ہیں ، ان پر وہ گھر سے بھی خرچ کرتا ہے اور  باہر بھی ان کو چگاتا ہے، لیکن  زیادہ  اپنے گھر سے خرچ کرتا ہے،  یہ بیل اس کی جمع پونجی کی طرح ہیں۔ پنجاب میں بیل رکھنا ایک منافع بخش تجارت ہے،  کیا ایسے بیل تجارتی سامان کی طرح ہیں کہ نہیں؟

جواب

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کی رو سے  مذکورہ شخص کے بیل ، جن کو اس نے بیچ کر نفع حاصل کرنے کی نیت سے خریدا ہے،   سامانِ تجارت کے حکم میں ہیں، لہٰذا جس طرح  سامانِ  تجارت میں سال گزرنے پر  زکات واجب  ہوتی  ہے، اسی  طرح ان بیلوں پر  سال گزرنے پر زکات  واجب ہوگی۔ چاہے  گھر سے ان کے چارے پانی کا انتظام کیا جائے یا باہر سے،  البتہ اگر وہ شخص حج پر جانے سے پہلے ان بیلوں کی  زکات ادا نہ کرپایا تب بھی حج ادا ہوجائے گا اور وہ حج کی ادائیگی کے بعد بھی ان بیلوں کی  زکات ادا کرسکتا ہے،  لیکن سال پورا ہونے کے بعد بلا ضرورت  زکات کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی  چاہیے۔ 

اور اگر مذکورہ شخص نے تجارت کی نیت سے بیل نہیں خریدے تھے، بلکہ گھر میں پالنے کی نیت سے خریدے تھے اور بعد میں تجارت کی نیت ہوگئی تو جب تک وہ انہیں بیچ نہیں دیتا یہ مالِ تجارت نہیں ہے، اس صورت میں زکات واجب نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 276)

"ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة ولعلهم تركوا ذلك لتصريحهم بالحكمين.

(قوله: ولعلهم تركوا ذلك) أي ترك أصحاب المتون من تعريف السائمة ما زاده المصنف تبعا للزيلعي والمحيط لتصريحهم أي تصريح التاركين لذلك بالحكمين: أي بحكم ما نوى به التجارة من العروض الشاملة للحيوانات وبحكم المسامة للحمل والركوب، وهو وجوب زكاة التجارة في الأول، وعدمه في الثاني."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں