بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارتی معاملہ میں رقم کی مکمل وصولیابی کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کرنا


سوال

میں نے ایک  زمینی گھر تقریباً 80 گز کا دو لاکھ روپے کا خریدا ، پھر میں نے وہ گھر بائع کو واپس کردیا ، فریق ثالث نے گواہوں کے سامنے بات ختم کردی ، اور رقم مجھے واپس کردی  ، اس کے بعد میں نے اس بندہ سے دوسرا  گھر بصورتِ فلیٹ 240 گز کا تیئس لاکھ روپے کا خرید ا، اس وقت اس آدمی نے کسی قسم کی رقم کا مطالبہ نہیں کیا ، اور اب کاغذات لینے کا وقت آیا تو وہ رقم کا مطالبہ کررہا ہے کہ میرے آپ پر پرانے گھر کے   49000 روپے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں پرانے زمینی گھر کا میں مطالبہ کرسکتا ہوں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے مذکورہ زمینی گھر واپس کرکے اس کی رقم واپس کردی تھی تو  خرید و فروخت کا یہ معاملہ ختم ہوگیا تھا، اب سائل کے لیے اس گھر کا دوبارہ مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں، اگر سابقہ معاملہ کے کچھ رقم کی ادائیگی سائل نے نہیں کی تو سائل کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم ہے، اگر سائل بیچنے والے شخص کے اس دعوی کا انکار کرتا ہے تو بیچنے والا دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں کو گواہ کے طور پر پیش کرے، ورنہ سائل قسم کھائے گا۔

اگر سائل نے اسی بیچنے والے کے ساتھ فلیٹ  کی خریداری کا معاملہ کیا ہے تو سائل کی ملکیت اس فلیٹ میں آگئی ہے، وہ اس کی رقم ادا کرکے اس فلیٹ کو لینے کا حق دار ہے، بیچنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ رقم کی ادائیگی کے بعد اس فلیٹ کے کاغذات روکے رکھے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ " ( سورۃ النساء ، آیت نمبر :29 )

ترجمہ :’’ اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں ۔‘‘( بیان القرآن)

شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لأحد  أن یأخذ  مال أحد بلا سبب شرعي."

 (مادۃ : 97 ، ج:1 ، ص : 264 ، ط: رشیدیہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں