بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت کے پلاٹ کو فروخت کرنا اور اس کے بعض رقم وصول کرنے پر زکات کا حکم؟


سوال

 میں نے " 2013"میں ایک  پلاٹ لیاتھاتیرہ  لاکھ (1300000)میں ،ابھی "2024"میں اس کی قیمت سترلاکھ (7000000)کے قریب بنتی ہے،لیکن قبضہ مافیا کی وجہ سے مجھے  مجبوراًپینتیس لاکھ (3500000)میں  پلاٹ  سیل کرنا پڑا،اٹھا ئیس لاکھ "2800000"وصول ہوگئی  باقی سات لاکھ (700000)بوقت رجسڑی  مل جائیگی ،اب ان پیسوں  کی زکوۃ  کس طرح  ادا کرنی  ہوگی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر پلاٹ تجارت کی نیت سے خرید اگیا ہے تو اس کی قیمت ِفروخت  پر زکوۃ فرض ہوگی ،یعنی جب زکوۃ  کاسال پورا ہو،اس وقت مارکیٹ میں جوفروخت کی قیمت ہوگی اس کا اعتبار ہوگا،اور اس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی  فیصد  زکوۃ  ادا کرنا لازم ہوگا،اور ہر سال پلاٹ  کی مالیت سے زکوۃ   نکلانا  لازم ہوگا۔نیزپلاٹ کا مالک اگر پہلے سے صاحب نصاب  ہے ،تو دیگر اموال زکات کی زکات اداکرتے وقت ،اور  اگر پہلے سے صاحب نصاب  نہیں ہے تو سال پورا ہونے پر مذکورہ    پلاٹ کے    رقم  کا چالیسواں حصہ  یعنی ڈھائی  فیصد  بطور زکات  ادا کرے۔

لہذا   سائل نے جب مذکورہ پلاٹ پینتیس لاکھ (3500000)پر بیچ دیا تو ایسی صورت  میں جو رقم  سائل  نے وصول  کرلی وہ اس کا مالک بن گیا اور اس کی زکات  اس کے ذمہ لازم ہوگی،نیز آئند ہ وصو ل ہونے والی رقم  یعنی سات  لاکھ(700000)کی زکوۃ بھی اس کے ذمہ لازم ہوگی،البتہ ادائیگی کے حوالے سے اختیار  ہوگا چاہیے تو جب   تک وصول نہ ہو ہر سال حساب کرکےزکوۃ ادا کرتا رہے،یاجب مکمل وصول ہوجائے تو ایک ساتھ تمام سالوں  کی زکوۃ ادا کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة ‌في ‌عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا هكذا في البحر الرائق۔"

(کتاب الزکوۃ ،الفصل الثانی فی العروض،179/1،ط،دار الفکر)

فتاوي شامي ميں  ہے:

"والأصل أن ما عدا ‌الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة،(قوله ما عدا ‌الحجرين) هذا علم بالغلبة على الذهب والفضة ط وقوله: والسوائم بالنصب عطفا على ‌الحجرين وما عدا ما ذكر كالجواهر والعقارات والمواشي العلوفة والعبيد والثياب والأمتعة ونحو ذلك من العروض۔"

(کتاب الزکوۃ ،273/2،ط،دار الفکر)

و فیہ ایضاً:

"وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة ‌يوم ‌الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه۔"

(کتاب الزکوۃ ،باب زکوۃ الغم،285/2،ط،دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وجملة ‌الكلام ‌في ‌الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا.

وعند أبي يوسف ومحمد كلما قبض شيئا يؤدي زكاته قل المقبوض أو كثر۔"

(کتاب الزکوۃ  ،فصل الشرائط التی ترجع الی المال،10/2،ط،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں