بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹائی باندھنا / پولسٹر کپڑا پہننا


سوال

1۔ کیا ٹائی پہننے کی  شرعا اجازت ہے؟

2۔ کیا آدمی پولسٹر کی  ٹائی یا پولسٹر کا کوئی  دوسرا لباس پہن سکتا ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ ٹائی کا استعمال کرنا صلحاء،شرفاء کے لبا س کا حصہ نہیں بلکہ فساق و فجاریا ان سے مرعوب لوگوں کے لباس کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے اور جو لبا س فساق و فجار کا شعار ہویا اس میں فساق و فجار سے مشابہت نظر آتی ہو اس کو استعمال کرنا صحیح نہیں ہے ، لہذا انتہائی  مجبوری کی صورت کے علاوہ عام اوقات میں ٹائی پہننے سے  اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاوی محمودیہ میں:

" سوال: 1۔ کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو، تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟

2۔ کسی کالج یا اسکول کی پوشاک میں ٹائی باندھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟

الجواب حامدا و مصلیا 

ٹائی ایک وقت میں نصاری کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیرنصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں، بہت سے صوم و صلاة کے پابند مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں، کہیں کراہیت شدید ہوگی کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہوجائے، وہاں اس کے منع پر زور نہ دیا جائے۔"

( باب اللباس، ٹائی کا استعمال، ١٩ / ٢٨٩، ط: مکتبہ فاروقیہ کراچی)

حلية الأولياء وطبقات الأصفياء للأصبهاني میں ہے: 

"حدثنا أبي قال: ثنا إبراهيم بن محمد بن الحسن، قال: ثنا هارون بن عبد الله، قال: ثنا سيار، قال: ثنا جعفر، قال: ثنا مالك بن دينار، قال: «أوحى الله إلى نبي من الأنبياء أن قل لقومك لا تدخلوا مداخل أعدائي ولا تطعموا مطاعم أعدائي ولا تلبسوا ملابس أعدائي ولا تركبوا مراكب أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائي»."

( فمن الطبقة الأولى من التابعين، مالك بن دينار ومنهم العارف النظار الخائف الجآر أبو يحيى مالك بن دينار، كان لشهوات الدنيا تاركا، وللنفس عند غلبتها مالكا. وقيل: إن التصوف تدلل وافتخار وتذلل وافتقار، ٢ / ٣٧١، ط: مطبعة السعادة - بجوار محافظة مصر)

2۔ مردوں کے لیے ریشمی  کپڑے کے علاوہ باقی تمام اقسام  کا کپڑا زیب تن کرنے کی شرعا اجازت  ہے، لہذا مسئولہ صورت میں  پولسٹر  کپڑا مرد پہن  سکتا ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(وأما) .الذي ثبت حرمته في حق الرجال دون النساء فثلاثة أنواع منها لبس الحرير المصمت من الديباج والقز لما روي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج وبإحدى يديه حرير وبالأخرى ذهب، فقال: هذان حرامان على ذكور أمتي حل لإناثها». وروي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى سيدنا عمر - رضي الله تعالى عنه - حلة فقال: يا رسول الله! كسوتني حلة وقد قلت في حلة عطارد إنما يلبسه من لا خلاق له في الآخرة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لم أكسكها لتلبسها، وفي رواية: إنما أعطيتك لتكسو بعض نسائك»".

( كتاب  الاستحسان،  ٥ / ١٣٠، ط: دار الكتب العلمية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں