بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طبِّ نبوی سے متعلق کتب سے علاج کرنا


سوال

کیا "طبِّ نبوی"( ﷺ)  صحیح  کتاب ہے؟ اس میں جو لکھا ہے  اس پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس سے فائدہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ ’’طبِّ نبوی‘‘ کے عنوان سے  احادیثِ  مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے  مختلف اہلِ علم نے مستقل کتابیں تصنیف کی  ہیں، آپ جس کتاب کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں، اس کے مصنف وغیرہ کی تفصیل کے ساتھ دوبارہ اس کتاب کے بارے میں معلوم کرسکتے ہیں، کتاب متعین کیے اور اس کا مطالعہ کیے بغیر اس کتاب کی استنادی حیثیت کے بارے میں جواب نہیں دیا جاسکتا۔

تاہم یہ یاد رہے کہ طب کے سلسلے میں یہ ہدایات وجوب اور لزوم کا درجہ نہیں  رکھتیں ،  ان کا تعلق علاج سے ہے، اور دوا و علاج کی تجویز میں  ہر شخص کے علاقے اور  ماحول، اسی طرح مریض کے اپنے مزاج اور طبیعت کو  مدنظر  رکھنا ضروری ہوتا ہے، اور مفردات (ہر دوا کے اجزا) اور مرکبات میں وزن اور توازن کا لحاظ بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا ان امور کو سامنے رکھتے ہوئے نیز  کسی ماہر معالج کے مشورے کے ساتھ ان پر عمل بلاشبہ  درست اور فائدہ مند ہوگا، اور اگر کسی شخص کو طبّ کے ان اُصولوں سے آگاہی نہیں ہے تو اسے  صرف نسخہ دیکھ کر دوسروں کا علاج نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ علاج کے طریقے بلاشبہ  درست ہیں، لیکن انسان اپنی ناتجربہ کاری سے نقصان اُٹھا سکتا ہے یا کسی کا نقصان  کرسکتاہے۔  نیز دوا و علاج کی تاثیر میں مریض کے اعتقاد  کا بھی بڑا دخل ہوتاہے۔

مندرجہ  ذیل  روایت سے بھی اس اصول کی جانب رہنمائی ملتی ہے کہ امراض کے علاج میں ، دوا کی مقدار ،مریض کی کیفیت ، اعتقاد و یقین کو بھی خاص دخل ہے ، لہذا ان امور کا لحاظ رکھنابھی  ضروری ہے۔

" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: أَخِي يَشْتَكِي بَطْنَهُ فَقَالَ: اسْقِهِ عَسَلاً، ثُمَّ أَتَى الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: اسْقِهِ عَسَلاً، ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ: فَعَلْتُ، فَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَ كَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ، اسْقِهِ عَسَلاً فَسَقَاهُ فَبَرَأَ".

ترجمہ: ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بھائی کو پیٹ کی بیماری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  اس کو شہد پلاؤ، پھر دوسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کو شہد پلاؤ، پھر (تیسری بار) آیا اور عرض کیا کہ میں نے پلایا (لیکن فائدہ نہیں ہوا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  اللہ  نے سچ فرمایا ہے، (یعنی شہد میں شفا کا ذکر قرآنِ پاک میں آیا ہے، وہ سچ ہے)  تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، اس کو شہد پلاؤ،  چنانچہ اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہوگیا۔

صاحب مظاہرحق علامہ قطب الدین خان دہلوی ؒ اس حدیث مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں :

" یہ بات بطورِ خاص ذہن میں رکھنے کی ہے کہ علاج معالجہ میں حسنِ اعتقاد اور معالج کی تشخیص و تجویز پر مکمل اعتبار و بھروسہ بنیادی چیز ہے، چنانچہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے معالج کے بارے میں بھی کسی قسم کے شک وشبہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس سے حسنِ اعتقاد نہیں ہوتا تو اس کا مزاج معالج کے اس علاج کو قبول نہیں کرتا اور شفا یابی سے محروم رہتا ہے خواہ وہ معالج کتنے ہی اونچے درجے کا کیوں نہ ہو، اس کے برخلاف اگر وہ شخص پورے یقین و اعتقاد کے ساتھ کوئی انتہائی معمولی درجہ کا بھی علاج کرتا ہے تو وہ علاج اس کے  لیے فائدہ مند ہوجاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص طبِّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنا علاج کرے جس کی کامیابی یقینی ہے اور اس کو اس علاج سے فائدہ نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اس کے ایمان میں کھوٹ ہے اور اس کو یقین و اعتقاد کی نعمت حاصل نہیں ہے ، لہٰذا جو شخص اپنے کسی مرض کا علاج طبِّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کرنے کا خواہش مند ہو تو اس کو اپنا یقین کامل اور اپنا اعتقاد مضبوط کرنا  چاہیے اور پھر صدقِ نیت و اخلاصِ عمل کے  ساتھ اس علاج کو اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ قرآنِ  کریم امراضِ باطنی و روحانی اور فسادِ قلب کے  لیے شفاءِ کامل کا درجہ رکھتا ہے ؛  لہٰذا جو شخص قرآنِ کریم کو اخلاص و خلوص کے جذبہ سے سیکھتا ہے اور پڑھتا ہے اس کی تعلیمات پر یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتا ہے ،اس کے قلب و روح کو یقینا جلا و شفا حاصل ہوتی ہے، اس کے برخلاف جو شخص عدمِ اخلاص و قبول اور بے یقینی وبے اعتمادی کے  ساتھ قرآنِ کریم کو سیکھتا پڑھتا ہے تو اس کے باطن میں اور زیادہ برائی اور اس کے قلوب میں اور زیادہ فساد پیدا ہوتا ہے ۔ اسی بنا  پر بعض حضرات نے حدیث کے الفاظ  کذب بطن أخیك(تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ) کو مریض کے عدمِ صدقِ نیت اور عدمِ خلوصِ اعتقاد پر بھی محمول کیا ہے، یعنی ان حضرات کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ تمہارے بھائی نے چوں کہ شہد کو یقین و اعتقاد اور اخلاص و قبول کے  ساتھ نہیں پیا ہے ، اس  لیے فائدہ ہونے کے بجائے اس مرض میں زیادتی ہو گئی ہے ۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں