بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف کال پر اجرت لینے کاحکم


سوال

کسی شخص کو فون پر کسی کام کیلئے کال آئے وہ اس کیلئے کوئی جسمانی مشقت نہ کرے اور کسی کاریگر کو کال پر بتا دے(یعنی دلال بن جائے) اور کاریگر اپنا کام کرنے پر مزدوری لینے میں 75فیصد خود لے اور 25 فیصد کال کرنے والے کو یعنی دلال کو دےدے کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں کسی کام کے لیے فون آنے کے بعد اگر فون سننے والے نے وہ کام انجام دینے کی اجرت متعین کرلی اور وہ کسی کاریگر کوکال پر بتاکر کام کروایا تواجرت میں سے 25 فیصد خود لینا اور 75 فیصد کام انجام دینے والے کاریگر دیناجائز ہے،اور اگر سوال کامقصد کچھ اور ہے تو وضاحت لکھ کر دار الافتاء سے دوبارہ رجوع کریں ۔

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"والسمسار في الأصل هو القیم بالأمر والحافظ له، ثم استعمل في متولی البیع والشراء لغیره."

(باب تحریم الحاضر للبادی،ج: 1،ص:336 ،ط:مکتبة دارالعلوم کراچی)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم،وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة،‌‌باب الإجارة الفاسدة،مطلب في أجرة الدلال،ج:6،ص:63،ط: سعيد)

و فیہ ایضا:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية  قوله (فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له."

( کتاب البیوع ج:4،ص:560 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں