بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تکافل اور بینک کی شرعی حیثیت


سوال

شخص قانونی جس کو آج کل بنیاد بنا کر تکافل کا نظام یا بینک کا نظام چلایا جاتاہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

جمہور علماءِ کرام کے نزدیک  کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی  سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے  جو ”تکافل“ کے عنوان سے نظام  چلارہے ہیں ، وہ بھی جائز نہیں ہے،اسی طرح  از روئے شرع  رائج بینک (خواہ روایتی بینک ہو یا مروجہ غیرسودی بینک ہو) سے کسی بھی طرح تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے، بینک  منافع کے نام سے جو کچھ دیتا ہے شرعًا وہ سود کے حکم میں ہے، اور سود کا  لینا  دینا قطعی نصوص  سے  حرام ہے ؛ اس لیے  بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہی جائز نہیں ہے، ضرورت پر بینک میں صرف  ایسا اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت ہے، جس میں سود  لینا دینا نہ پڑتا ہو جیسے کرنٹ اکاؤنٹ۔

مزید تفصیل کے لیے  کتاب ”مروجہ تکافل اور شرعی وقف‘‘  اور  کتاب ”مروجہ تکافل کا فقہی جائزہ“ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

       ارشاد باری تعالی ہے:

"{وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا." }[النساء: 161]

حدیث شریف میں ہے:

"عن جا بر  قال: لعن رسول اللّٰہ  آکلَ الربوا ومؤکله وکاتبه وشاهدیه وقال: هم سواء".

(صحیح مسلم، کتاب المساقات، باب آکل الربوا ومؤکلہ،ج:3،ص:1219، دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:" حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (کتاب الحظر والاباحة،6 / 403، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں