بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد کا وقت،باتھ روم میں ذکرکرنے کا حکم،بیماری سے صحت یابی کے لیے وظیفہ،اور بیماری کی وجہ سے نمازمیں کھڑے ہونے پر قادر نہ ہونا،مال ودولت کے لیے وظیفہ


سوال

1 -  میں صبح 4 بجے اٹھتا ہوں یا کبھی فجر کی اَذان پر اٹھتا ہوں پِھر میں تہجد اور نوافل پڑھتا ہوں . فجر کی اَذان کے بعد تہجد اور نوافل پڑھ سکتے ہیں؟

 2 -  میں باتھ روم میں غسل کرتا ہوں تو میری زبان سے اللہ کا نام آتا ہے یعنی ذکر ، آیت ، سورۃ  فاتحہ وغیرہ ۔  ( گھر میں صرف باتْھ روم ہوتے  تھے، اب ساتھ لیٹرین بھی ہوتے ہیں ۔)

3 -  آج کل میں بہت پریشان ہوں مالی ، صحت ، حالات وغیرہ   گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے،اور میری عمر 70 سال ہے اب میں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟  کوئی راستہ یا حل بتائیں؛ تاکہ میری حالت صحیح ہوجائے!

4-  میں نماز   دِل سے نہیں پڑھ سکتا صرف فجر اور ظہر ہی پڑھتا ہوں . ریڑھ کی ہڈی میں  بہت درد ہوتا ہے۔

جواب

1-تہجد کا وقت صبح صادق (طلوع فجر) تک ہوتا ہے، صبح صادق (طلوع فجر) ہوجانے کے بعد فجر کی دو سنت کے علاوہ کسی بھی قسم کی نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، پس اگر کسی نے صبح صادق کے بعد تہجد  ادا کرلی تو تہجد ادا نہ ہوگی،  اس لیے  فجر سے کچھ دیر پہلے اٹھنے کے وقت اگر صبح صادق (طلوع فجر ) نہ ہوئی ہوتو  تہجد کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، لیکن اگر صبح صادق کا وقت ہوچکا ہو تو پھر تہجد کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے، آئندہ تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے  وقت کو دیکھ لیا جائے ، جو کچھ وقت میں غلط فہمی کی  وجہ سے تہجد کی نیت سے پڑھا اسے ضابطہ شرعی کی رو سے تہجد قرار نہیں دیا جائے گا، البتہ دعائیں ،وذکر رائیگاں نہیں جائیں گی، دعاؤں کے لیے تہجد کا وقت لازم نہیں۔

اور  شک  و  شبہات سے  بچنے کے  لیے اوقاتِ  نماز  کی  کوئی مستند جنتری  (مثلًا: پروفیسر عبداللطیف صاحب مرحوم کی تیار کردہ جنتری) اپنے پاس رکھ  لیں، تاکہ اشتباہ سے بچ سکیں، یا ہماری ویب سائٹ کے سرورق یا دار الافتاء سیکشن میں "اوقاتِ نماز" کے عنوان کے تحت اپنے مطلوبہ ملک و شہر کا دائمی نقشہ اوقاتِ نماز ملاحظہ کیجیے۔

تنوير الأبصار مع الدر و الرد میں ہے:

"(من) أول (طلوع الفجر الثاني) وهو البياض المنتشر المستطير لا المستطيل (إلى) قبيل (طلوع ذكاء) بالضم غير منصرف اسم الشمس. (قوله: وهو البياض إلخ) لحديث مسلم والترمذي واللفظ له «لا يمنعنكم من سحوركم أذان بلال ولا الفجر المستطيل ولكن الفجر المستطير» " فالمعتبر الفجر الصادق وهو الفجر المستطير في الأفق: أي الذي ينتشر ضوءه في أطراف السماء لا الكاذب وهو المستطيل الذي يبدو طويلا في السماء كذنب السرحان أي الذئب ثم يعقبه ظلمة."

(کتاب الصلاۃ،ج:1،ص:359،ط: سعید )

2- مشترکہ غسل خانہ اوربیت الخلا  جس میں داخل ہونےکے لیے ایک ہی دروازہ ہوتاہے اور قضائے حاجت کی جگہ اور غسل کی جگہ کے درمیان کوئی دیوار یا آڑ نہیں ہوتی، اس قسم کے غسل خانوں میں وضو کے شروع اور درمیان کی  دعائیں زبان سے پڑھنا منع ہے؛ کیوں کہ درمیان میں آڑ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیت الخلا میں پڑھنا شمارہوگا، اوربیت الخلا میں اَذکار   پڑھنے سے  شریعت نے منع کیا ہے، ایسی جگہ دل ہی دل میں زبان کو حرکت دیے بغیر پڑھنے کی اجازت ہے۔ البتہ اگر  غسل خانہ اور بیت الخلا دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں، دونوں کے درمیان کوئی دیوار یا پردہ حائل ہے اور غسل خانے میں گندگی بھی نہیں ہے تو اس صورت میں  وضو کرتے ہوئے وضو کی دعائیں زبان سے پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن غسل کے دوران جب کہ ستر کھلا ہو زبان سے ذکر کرنا مکروہ ہے۔

واضح رہے کہ  باتھ روم (جس میں بیت الخلا کی جگہ بھی ساتھ ہی ہو) میں بلاضرورت گفتگو کرنا بھی مکروہ ہے، لہٰذا اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن هلال بن عیاض، قال: حدثني أبوسعید قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: لایخرج الرجلان یضربان الغائط، كاشفین عن عورتهما یتحدثان؛ فإنّ اللہ عزّ و جلّ یمقت علی ذلك."

(كتاب الطهارة، باب كراهية الكلام عند الخلاء،ج:1،ص:14،ط: رحمانیه لاهور)

"یعنی حضرت ابوسعید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں نکلتے دو شخص قضاءِ حاجت کے لیے اس حال میں کہ وہ ستر کھولے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان پر غصہ ہوتے ہیں۔"

وفیه أیضًا:

"عن ابن عمر قال: مر رجل على النبي ﷺ و هو یبول فسلّم علیه، فلم یردّ علیه. قال أبوداؤد: و روي عن ابن عمر و غیره: أنّ النبي ﷺ تیمّم، ثمّ ردّ علی الرجل السلام."

(كتاب الطهارة، باب في الرجل یرد السلام و هو یبول،ج:1،ص: 14،ط: رحمانیه لاهور)

"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قضاءِ حاجت فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے سلام کیا، آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیمم کرکے اس کے سلام کا جواب دیا۔"

فتاوی شامی میں ہے: 

"ويستحب أن لا يتكلم بكلام مطلقاً، أما كلام الناس؛ فلكراهته حال الكشف، وأما الدعاء؛ فلأنه في مصب المستعمل ومحل الأقذار والأوحال."اهـ

(کتاب الطھارۃ،سنن الغسل،ج:1،ص:156،ط:دار الفکر)

3- صورتِ  مسئولہ میں کثرت سے "یا سلام" کا ورد رکھیں، نیز  سورہ فاتحہ اور  آیاتِ شفا پڑھ کر ان پر دم بھی کریں اور ان کے کھانے پینے کی اشیاء پر بھی وہ دم کرکے کھلائیں پلائیں، آیاتِ شفا درج ذیل ہیں:

1- وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ

2- قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفٍآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ

3- یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ

4- وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَاهُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ

5- وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ

6- قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًی وَّشِفَآءٌ

مال و دولت  میں برکت کے لیے  درج ذیل امور کا اہتمام  کیا جائے:

1۔ فجر کی نماز کے بعد ستر مرتبہ {اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ  وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ} پڑھنا۔

2۔ استغفار کثرت کے ساتھ کرنا

3۔ مغرب کے نماز کے بعد سورہ واقعہ پڑھنے کا معمول بنانا۔

4۔ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا۔

5۔ موجود نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔

معارف القرآن میں ہے:

"{اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ  وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ}."

ایک مجرب عمل:

مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری نے فرمایا کہ حضرت حاجی امداد اللہ سے منقول ہے کہ جو شخص صبح کو ستر مرتبہ پابندی سے یہ آیت پڑھا کرے وہ رزق کی تنگی سے محفوظ رہے گا۔ اور فرمایا کہ بہت مجرب عمل ہے۔ آیت یہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔"

( سورہ شوری، ج:7،ص:687، ط:إدارة المعارف)

سنن  ابی داؤدمیں ہے:

"١٥١٨- عن ابن عباس، أنه حدثه، قَال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لزم الإستغفار، جعل اللّه له من كل ضيق مخرجا، ومن كل هَمّ فرجا، ورزقه من حيث لا يحتسب»".

( باب تفريع أبواب الوتر، باب في الإستغفار ، ج:2،ص:85، ط: المكتبة العصرية)

ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی استغفار کا التزام کر لے  تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔"

صحیح البخاری میں ہے:

"٥٩٨٦- ...  قال: أخبرني أنس بن مالك، أَن رسول الله صلي الله عليه وسلّم قال: «من أحبّ أن يبسط له في رزقه، وينسأ له في أثره، فليصل رحمه»".

(كتاب الأدب، باب من بسط له في الرّزق بصلة الرّحم،ج :8،ص:5، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: "حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔"

4- صورتِ  مسئولہ میں جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہو، تو ان صورتوں میں وہ زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

نیز اگر مذکورہ شخص زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے رکوع سجدہ کرنے پر قادر ہو تو اُس کے لیے کرسی  کے بجائے زمین پر بیٹھ کر ہی اشارہ سے رکوع وسجدہ کرنا افضل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان عاجزا عنه: فإن كان عجزه عنه بسبب المرض بأن كان مريضا لا يقدر على القيام والركوع والسجود يسقط عنه؛ لأن العاجز عن الفعل لا يكلف به، وكذا إذا خاف زيادة العلة من ذلك؛ لأنه يتضرر به وفيه أيضا حرج، فإذا عجز عن القيام يصلي قاعدا بركوع وسجود، فإن عجز عن الركوع والسجود يصلي قاعدا بالإيماء، ويجعل السجود أخفض من الركوع، فإن عجز عن القعود يستلقي ويومئ إيماء؛ لأن السقوط لمكان العذر فيتقدر بقدر العذر."

(كتاب الصلاة، فصل أركان الصلاة،ج:1،ص:105- 106،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ذا عجز المريض عن القيام صلى قاعدا يركع ويسجد، هكذا في الهداية وأصح الأقاويل في تفسير العجز أن يلحقه بالقيام ضرر وعليه الفتوى، كذا في معراج الدراية، وكذلك إذا خاف زيادة المرض أو إبطاء البرء بالقيام أو دوران الرأس، كذا في التبيين أو يجد وجعا لذلك فإن لحقه نوع مشقة لم يجز ترك ذلك القيام، كذا في الكافي...... ثم إذا صلى المريض قاعدا كيف يقعد الأصح أن يقعد كيف يتيسر عليه، هكذا في السراج الوهاج، وهو الصحيح، هكذا في العيني شرح الهداية.وإذا لم يقدر على القعود مستويا وقدر متكئا أو مستندا إلى حائط أو إنسان يجب أن يصلي متكئا أو مستندا، كذا في الذخيرة ولا يجوز له أن يصلي مضطجعا على المختار، كذا في التبيين.

وإن عجز عن القيام والركوع والسجود وقدر على القعود يصلي قاعدا بإيماء ويجعل السجود أخفض من الركوع، كذا في فتاوى قاضي خان حتى لو سوى لم يصح، كذا في البحر الرائق.

وكذا لو عجز عن الركوع والسجود وقدر على القيام فالمستحب أن يصلي قاعدا بإيماء وإن صلى قائما بإيماء جاز عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع عشر في صلاة المريض،ج:1،ص:136،ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوما."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المريض، 97،98/2، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں