بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹھیکہ دلوانے پرمنافع میں شریک ہونے کا حکم


سوال

 میرا ایک دوست مجھے کہتا ہے کہ میں آپ کو  ایک کمپنی سے ٹھیکہ  لے کے دیتا ہوں،  لیکن اس میں جو منافع ہوگا،  وہ آدھا آدھاہوگا  دونوں کا۔ یعنی کمپنی سے ساری لین دین بھی میں کروں گا اور سارا کام بھی میں کرواؤں گا،  لیکن اس کو میں صرف بات کرنے پر کمپنی سے یا پھر ٹھیکہ کر لے کر دینے پر آدھے پیسے دوں گا اور کمپنی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ میں اس کو آدھے پیسے دے رہا ہوں تو  کیا یہ ہم دونوں کے لیے درست ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو شخص کمپنی سے رابطہ کرتا ہے اور کمپنی سے رابطہ کر کے آپ کو ٹھیکہ دلواتا ہے اُس کی حیثیت  کمیشن ایجنٹ کی ہے، لہذا اُس کا آپ کو ٹھیکہ دلوا کر آپ سے  ایک مرتبہ  کمیشن وصول کرنا جائز ہے، لیکن اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1.  اس معاملہ میں  کمیشن ایجنٹ (جو کمپنی سے ٹھیکہ دلوا کر آپ کو دے گا)   حقیقتًا  اپنا کوئی  کردار ادا کرے۔

2. کمیشن کی ایک رقم متعین کر دی جائے، اگر رقم متعین نہ ہو تو کمیشن لینا درست نہیں ہو گا۔

جیسا کہ ذکر ہوا کہ بھاگ دوڑ کی وجہ سے اسے ایک مرتبہ کمیشن تو دینا جائز ہے،  لیکن اسے ہربار  نفع میں شریک کرنا جائز نہیں ہے، مذکورہ صورت میں چوں کہ ابھی تک منافع کا تحقق اور مقدار متعین نہیں ہے، اس لیے منافع کا نصف بطورِ اجرت متعین کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 63):

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".

  فقط وا للہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں