بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین سے زائد سے جوڑے انسان کی بنیادی ضرورت میں سے ہیں اس کے متعلق حوالہ


سوال

144010200830 مذکورہ فتوی نمبر میں آنجناب نے تین جوڑے سے زائد والے قول کو بعض اہل علم کا قول کہا ہے، اور جمہور اہل فتوی کا قول اس کے بر خلاف بتلایا ہے۔ اس بابت کسی حوالہ کی را  ہ نمائی کردیں، اب تک تو تمام اکابر حضرات کا فتوی یہی پڑھا سنا کہ تین سے زائد جوڑے ضرورت سے زائد شمار ہوں گے۔

جواب

فقہاءکرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے حاجتِ اصلیہ کی جو تعریف کی ہے اس سے یہ اصولی بات واضح ہوتی ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو ہلاکت سے بچاتی ہے خواہ حقیقۃً ہلاکت سے بچائے یا تقدیراً ہلاکت سے بچائے وہ حوائجِ اصلیہ میں شامل ہے، مثلًا کھانا، پینا انسان کو حقیقۃً ہلاکت یعنی موت سے بچاتا ہے اور قرض کی ادائیگی سے انسان تقدیری ہلاکت یعنی رسوائی ا ورقید وغیرہ سے بچتا ہے، اور فقہاء ِ کرام نے حوائجِ اصلیہ کی جو مثالیں دی ہیں وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیشِ نظر دی ہیں، حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی نوعیت اور مقدار میں تبدیلی آئے گی ۔

مذکورہ بالا اصول کے پیشِ نظر فقہائے کرام کی عبارات میں جن اشیاء کو حوائجِ اصلیہ میں شامل کیا گیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہیں:

(۱)رہائشی مکان (۲)پہننے کے کپڑے (۳) روزمرہ استعمال میں آنے والا گھریلو سامان (۴) سواری (۵)خدمت گار(۶)ہتھیار جو اپنے استعمال میں ہیں(۷)اپنے اہل و عیال کے  لیے رکھی گئی اشیاءِ خوراک(۸)اہلِ علم کے  لیے دینی کتب (9)پیشہ والوں کے لئے اپنے آلات اور آلاتِ مزدوری وغیرہ ۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں  سائل کایہ کہنا درست نہیں ہے کہ تمام اکابر ین حضرات کافتویٰ یہی ہےکہ تین سےزائد جوڑےضرورت سےزائد شمارہوں گے، بلکہ اس  کےمتعلق تفصیل یہ  ہے کہ حالات کی تبدیلی کی صورت میں چیزوں کی نوعیت،  تعداد اوراستعمال میں فرق آسکتا ہے،اس اصول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  پہننے کے کپڑوں میں حاجتِ اصلیہ کے لیے جوڑوں کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں ہے،بہرحال !جمہور اہل علم کی رائےیہ ہےکہ  اسراف سے بچتے ہوئے انسان جتنے جوڑے استعمال کے لیے سلوائے اور انہیں استعمال کرے، شرعاً اس کی اجازت بھی ہے اور یہ جوڑے استعمال میں ہونے کی وجہ سے بنیادی ضرورت کے سامان میں بھی داخل ہوں گے، اور صدقہ فطرا ور قربانی کے نصاب میں ان کی مالیت کو شامل نہیں کیا جائے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، و قيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب."

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:262، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى ‌وثياب ‌البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة، وكذا طعام أهله وما يتجمل به من الأواني إذا لم يكن من الذهب والفضة، و كذا الجوهر واللؤلؤ والياقوت والبلخش والزمرد ونحوها إذا لم يكن للتجارة، وكذا لو اشترى فلوسا للنفقة كذا في العيني شرح الهداية وكذا كتب العلم إن كان من أهله وآلات المحترفين كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج"1، ص:172، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں