بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹھنڈ کی وجہ سے غسلِ جنابت کیے بغیر نماز اور قرآن مجید پڑھنے کا حکم


سوال

میں  ہندستان میں ایک  مدرسہ میں حفظِ قرآن مجید کررہا ہوں اور میری عمر 14 سال ہے اور مجھے احتلام بہت ہوتا ہے اور یہاں پر بہت ٹھنڈ ہے ،تو کپڑے کے جس حصے پر منی لگی ہو اور جِسم کا وہ حصہ جس پر منی لگی ہو ان حصوں کے دھونے کے بعد قرآن مجید اور نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ نماز کے لیے حدثِ اصغر ( بے وضو ہونے کی حالت) اور حدثِ اکبر ( غسل لازم ہونے کی حالت) سے پاکی شرط ہے،اسی طرح قرآن پاک کی تلاوت کے لیے بھی حدثِ اکبر سے پاکی شرط ہے،اس کے بغیر نماز پڑھنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے صرف ٹھنڈ کی وجہ سے غسل کو چھوڑ کرصرف   جسم اور کپڑوں کے ناپاک حصہ کو دھو کر نماز اور قرآن مجید پڑھنا جائز نہیں ہے،بلکہ غسل کرکے نماز اور قرآن مجید پڑھنا چاہیے ،خاص کر جب کہ مدارس وغیرہ میں گرم پانی کا نظام بھی موجود ہوتا ہے ،البتہ اگر گرم پانی موجود نہ ہو اور نہ ہی پانی گرم کرنے کی کوئی ترتیب بن سکتی ہو اور اسی طرح گرم بستر یا لحاف یا بنیان وغیرہ جس سے بدن کو گرم کیا جاسکے موجود نہ ہو اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کی صورت میں موت یا کسی عضو کے ضائع ہونے یا بیمار پڑ جانے یا بیماری میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں ،البتہ بعد میں غسل کرنا ضروری ہوگا۔

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"(عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا تقبل) : أي: قبول إجابة وإثابة بخلاف المسبل والآبق، فإن صلاتهما لا تقبل أيضا لكنها لا تقبل بترك الإثابة، وتقبل إجابة فلا يرد ما قيل من أنه لا يلزم من عدم القبول عدم الجواز والصحة مع أن الطهارة شرط الصحة ( «صلاة من أحدث) » : أي: صار ذا حدث قبل الصلاة أو في أثنائها، والمراد بالصلاة المضافة صورتها أو باعتبار ما كانت (حتى يتوضأ) : أي: حقيقة أو حكما، أو يتوضأ بمعنى يتطهر فيشمل الغسل والوضوء والتيمم. قال المظهر: المعنى لا يقبل الله صلاة بلا وضوء إلا إذا لم يجد الماء فيقوم التيمم مقامه."

(كتاب الطهارة ،باب ما يوجب الوضوء ،358/1،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(من عجز) مبتدأ خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعده) ولو مقيما في المصر (ميلا) أربعة آلاف ذراع..(أو لمرض) يشتد أو يمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرك..(أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه.

(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اهـ..(قوله ولو في المصر) أي خلافا لهما (قوله ولا ما يدفئه) أي من ثوب يلبسه أو مكان يأويه. قال في البحر: فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجه من الوجوه لا يباح له التيمم إجماعا."

(كتاب الطهارة ، باب التيمم،232,234/1،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجوز التيمم إذا خاف الجنب إذا اغتسل بالماء أن يقتله البرد أو يمرضه هذا إذا كان خارج المصر إجماعا فإن كان في المصر فكذا عند أبي حنيفة خلافا لهما والخلاف فيما إذا لم يجد ما يدخل به الحمام فإن وجد لم يجز إجماعا وفيما إذا لم يقدر على تسخين الماء فإن قدر لم يجز هكذا في السراج الوهاج..ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم..ويعرف ذلك الخوف إما بغلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو إخبار طبيب حاذق مسلم غير ظاهر الفسق."

(كتاب الطهارة ،الباب الرابع في التيمم، الفصل الأول ،28/1،ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں