بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تھکاوٹ کی وجہ سے جماعت ترک کرنا


سوال

اکثر میں کام سے آتا ہوں تو بہت زیادہ تھکا ہوتا ہوں تو نماز گھر میں پڑھ لیتا ہوں۔ گھر پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

عام اَحوال (جماعت ساقط کرنے والے شرعی عذر کی عدمِ موجودگی) میں مردوں کے لیے فرض نماز جماعت کے ساتھ مساجدمیں ادا کرنا واجب ہے، جماعت  ترک کرکے انفرادی نماز پڑھنے اور مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے  گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں ، چنانچہ مشکوۃ  شریف کی روایت میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلاً فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال، -وفي رواية: لايشهدون الصلاة-، فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقًا سمينًا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء". رواه البخاري ولمسلم نحوه".

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!  میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے جماعت میں نہیں آتے) اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جو لوگ نماز کے لیے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی، بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔

مشکوۃ شریف کی دوسری روایت میں ہے:

"وَعنِ ِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ فَلَمْ یَمْنَعْه مِن اتِّبَاعِه عُذْرٌ، قَالُوْا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضَ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه الصَّلاة الَّتِي صَلَّی". (رواه أبوداؤد والدارقطني)".

ترجمہ :" حضرت عبداللہ بن عباس راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو آدمی اذان کہنے والے (یعنی مؤذن) کی اذان سنے اور مؤذن کی تابعداری (یعنی مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہونے) سے اسے کوئی عذر نہ روکے، لوگوں نے پوچھا کہ عذر کیا ہے؟ فرمایا کہ : (دشمن سے) ڈرنا یا بیماری، تو اس کی نماز جو بغیر جماعت (اگرچہ مسجد ہی میں پڑھے) قبول نہیں کی جاتی "۔

مشہور نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مدینہ میں حشرات الارض اور درندے بہت ہیں، اور میں نابینا ہوں، کیا میرے لیے رخصت ہے؟ اور بعض روایات میں ہے کہ ایک نابینا صحابی آئے اور عرض کیا کہ میرے پاس کوئی رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد تک پکڑ کر لے آئے،  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم "حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح" سنتے ہو؟ یعنی اذان سنتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا پھر نہیں،اور آپ ﷺ نے انہیں رخصت نہیں دی۔

یہ روایات اور اس طرح کی دیگر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مردوں کے لیے بلاشرعی عذر کے مسجد کو چھوڑ کر گھر میں نماز اداکرنا درست نہیں، ایسے افراد احادیث میں مذکور شدید وعید میں شامل ہیں۔

لہذا مردوں کے لیے حالتِ صحت وتندرستی  اور عام حالات میں مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے، صرف تھکاوٹ کو عذر بنا کر اس بنا  پر مسجد کی جماعت چھوڑ کر گھر پر نماز ادا کرنے سے نماز کا فریضہ تو ادا ہوجائے گا لیکن ترک جماعت کی وجہ سے گناہ ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں