بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تھکن کی وجہ سے تراویح کی جماعت، یا تراویح ہی کو ترک کرنا درست نہیں


سوال

اگر روزہ دار دن کو کام کرتا ہے،  تھک جاتا ہے،  عشاء نماز پڑھے تراویح نہ پڑھے؟اور  اگر تراویح اکیلے میں پڑھ لے تو ہو جائے گی؟

جواب

تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنتِ مؤکدہ ہے،بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔خلفاءِ  راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے،  اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنتِ  کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو  سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے۔

جو  مرد انفرادی تراویح پڑھے گا  اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم ہے گا، اور عورتوں  کے لیے جماعت  سنتِ مؤکدہ  کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا  پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں تراویح کی نماز سنتِ  مؤکدہ ہے، اور تراویح میں جماعت بھی سنت ہے اور بغیر عذر کے جماعت کو ترک کرنے والا گناہ گار ہو گا؛  لہذا محض تھکاوٹ کی وجہ سے تراویح کی نماز  باجماعت کو   ترک کرنا، یا بالکل تراویح ہی نہ پڑھنا درست نہیں ،  بلکہ  کوشش کر کے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا  اہتمام کیا جائے، جماعت کے ساتھ پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے،  رمضان المبارک   جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے  گویانیکیوں کا موسم ہے جس میں  نیک اعمال کا ثواب  عام ایام کی بنسبت زیادہ ہوجاتاہے،  اس میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھ کر زیادہ ثواب حاصل کرنے کے  بجائے اسے ترک کر نا محرومی ہے،  ایسا نہیں کرنا چا ہیے۔ تاہم اگر کسی  مرد نے  تروایح  کی نماز جماعت کے ساتھ نہیں  پڑھی ، بلکہ انفرادی طور پر پڑھ لی تو  تروایح کی سنت ادا ہو جائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم ہے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا.اهـ."

 (کتاب الصلاۃ،  باب الوتر والنوافل،ج:2، صفحہ:  45،  ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں