بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد کی تعریف اور وقت


سوال

 کیاتہجد کے لیے سونا لازم ہے ؟

جواب

تہجد کی نماز  کے لیے سوکر اٹھنا لازم نہیں، بلکہ سوئے بغیر بھی پڑھ سکتے ہیں، البتہ سوکر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنا افضل ہے،  کیونکہ جس قدر بھی رات کا حصہ متاخر ہوتا جاتا ہے، برکات اور رحمتیں زیادہ ہوتی چلی جاتی ہیں، اور رات کے آخری پہر میں سب حصوں سے زیادہ برکات پائی جاتی ہیں،اور مشقت بھی زیادہ ہوتی ہے، نیند قربان کرکے اٹھنا اتنا آسان نہیں ہوتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول عام طور سے یہی رہا کہ آخر رات میں بیدار ہوکر نماز پڑھتے تھے، اس  لیے افضل یہی ہے کہ تہجد کی نماز رات کے آخری پہر میں  بیدار ہو کر پڑھی جائے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ’’معارف القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:

"لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی  --- اسی طرح رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازِتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت﴿وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ﴾کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

" نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا."

(معارف القرآن، سورۃالاسراء، تحت الآیۃ:79، تہجد کا وقت، ج:5 ، ص :515)

 تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"فإن التهجد: ما كان بعد نوم. قاله علقمة، والأسود وإبراهيم النخعي، وغير واحد وهو المعروف في لغة العرب. وكذلك ثبتت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه كان يتهجد بعد نومه، عن ابن عباس، وعائشة، وغير واحد من الصحابة، رضي الله عنهم، كما هو مبسوط في موضعه ، ولله الحمد والمنة. وقال الحسن البصري: هو ما كان بعد العشاء. ويحمل على ما بعد النوم."

(تفسير ابن كثير، سورة الاسراء،الآية:79،ج:5 ،ص:94 ، دارالكتب العلمية)

اس کاحاصل یہ ہے کہ تہجد کے اصل مفہوم میں بعد النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کاتعامل یہی رہاہے کہ يہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: وصلاة الليل) أقول: هي أفضل من صلاة النهار، كما في الجوهرة ونور الإيضاح، وقد صرحت الآيات والأحاديث بفضلها والحث عليها. قال في البحر: فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعا: «أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل»، وروى الطبراني مرفوعا: «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل»، وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ. قلت: قد صرح بذلك في الحلية، ثم قال فيها بعد كلام: ثم غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد. وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم، وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو رضي الله عنه قال: «يحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد: المرء يصلي الصلاة بعد رقدة، غير أن في سنده ابن لهيعة وفيه مقال، لكن الظاهر رجحان حديث الطبراني الأول لأنه تشريع قولي من الشارع صلى الله عليه وسلم بخلاف هذا، وبه ينتفي ما عن أحمد من قوله قيام الليل من المغرب إلى طلوع الفجر اهـ ملخصا.

أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لا يحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسرا للأول، وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح؛ لأن فيه ترك العمل بأحدهما، ولأنه يكون جاريا على الاصطلاح، ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث، ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل: تأثم أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد، وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي، والله أعلم."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل ،مطلب في صلاة اليل، ج:2، ص:24، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں