بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹھیکے پر دی ہوئی زمین کا عشر موجر پر ہوگا یا مستاجر پر؟


سوال

ٹھیکے پر لی ہوئی زمین کا عشر موجر پر ہوگا یا مستاجر پر؟

جواب

واضح رہے کہ اگر زرعی زمین ان نہری زمینوں میں  سے ہےجن کے پانی کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے یا  کنویں یا تالاب یا ٹیوب ویل سے سیراب کی جاتی ہےتو اس میں    کل پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوگا، اور اگر  یہ زمین بارانی ہے یا نہری ہے مگر  پانی کا خرچہ نہیں ، پانی مفت ہے تو پھر  اس میں عشر  (کل پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا، اور زمین کو ٹھیکے پر لینے کی صورت میں زمین کا مالک اگر کرایہ بہت  زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو بہت کم بچت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں عشر  زمین کے مالک کے ذمہ ہوگا، اور اگر  زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔

احسن الفتاویٰ میں ہے:

’’عشر اور خراجِ مقاسمہ میں یہ تفصیل ہے کہ اگر زمیندار اجرت بہت زیادہ لیتا ہے اور مستاجر کے پاس بہت کم بچتا ہے، تو عشر اور خراجِ مقاسمہ زمیندار پر ہے، اور اگر اجرت کم لیتا ہے، مستاجر کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو عشراور خراجِ مقاسمہ مستاجر پر ہے۔‘‘

(کتاب الزکاۃ، باب لعشر والخراج، ج: 4، ص: 347، ط: ایچ۔ ایم۔ سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

''والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا: على المستأجر كمستعير مسلم. وفي الحاوي : وبقولهما نأخذ.

وفي الرد: (قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه... فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد."

(کتاب الزکاة، باب العشر، فروع فی زکاة العشر، ج: 2، ص: 334، ط: دار الفكر بيروت)

وفیه أیضاً:

"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لا تأباه ولو سقى سيحا وبآلة اعتبر الغالب ولو استويا فنصفه وقيل ثلاثة أرباعه (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر.

وفي الرد: (قوله: لكثرة المؤنة) علة لوجوب نصف العشر فيما ذكر (قوله: وقواعدنا لا تأباه) كذا نقله الباقاني في شرح الملتقى عن شيخه البهنسي؛ لأن العلة في العدول عن العشر إلى نصفه في مستقى غرب ودالية هي زيادة الكلفة كما علمت وهي موجودة في شراء الماء ولعلهم لم يذكروا ذلك؛ لأن المعتمد عندنا أن شراء الشرب لا يصح وقيل إن تعارفوه صح وهل يقال عدم شرائه يوجب عدم اعتباره أم لا تأمل نعم لو كان محرزا بإناء فإنه يملك فلو اشترى ماء بالقرب أو في حوض ينبغي أن يقال: بنصف العشر؛ لأن كلفته ربما تزيد على السقي بغرب أو دالية."

(کتاب الزکاة، باب العشر، ج: 2، ص: 328، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403101542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں