ایک جگہ مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا گیا، جس میں کچھ زکات کی رقم تھی، جس کو باقاعدہ شرعی حیلے کے ذریعے سے مسجد کی تعمیر میں شامل کردیا گیا(جن مستحقِ زکات لوگوں کو زکات کی رقم دی گئی تھی، انہوں نے اپنی مرضی سے مسجد کی تعمیر کے لئے جمع کروائی تھی)، اب جس ٹھیکیدار کو یہ رقم دی گئی، وہ یہ رقم لے کر بھاگ گیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کی زکات کی رقم حیلہ کرکے مسجد میں دی گئی، ان کی زکات ادا ہوگئی یا نہیں؟اگر ادا نہیں ہوئی تو اس کی پھر کیا صورت ہوگی؟نیز جن لوگوں نے چندہ دیا تھا، اب کیا وہ وکیل سے اس چندہ کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ جبکہ چندہ جمع کرنے والاوکیل خود بھی اس معاملہ میں بے بس ہے اور خود صاحبِ استطاعت بھی نہیں ہے(انتظامیہ والے حضرات، جن کے پاس مسجد کا چندہ جمع ہوتا ہے اور وہ مسجد کی تعمیر میں خرچ کرتے ہیں)۔
واضح رہے کہ مسجد کےاخراجات کے لیے حیلہ تملیک کرنا درست نہیں ہے، اہلیانِ محلہ کو چاہیے کہ زکات اور واجب صدقات کے علاوہ اپنے خالص حلال مال سے مسجد کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھیں، اگر مسجد پسماندہ اور غریب علاقے میں ہے اور اہلیانِ مسجد میں مسجد کے اخراجات کو عطیات کی مد سے پورا کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو اس علاقے سے باہر کے دیگر اہلِ خیر حضرات کو اس طرف متوجہ کیا جائے، اورحیلہ تملیک سے بچنے کی آخری حد تک سنجیدہ کوشش کی جائے۔
اس کے بعد بھی اگر مذکورہ کوئی صورت ممکن نہ ہو اور کوئی اس کی ذمہ داری نہیں لیتا، تو اس صورت میں بوجہ مجبوری شرائط کے ساتھ حیلہ کی گنجا ئش ہو گی، یعنی فقیر کو زکات کی رقم دیتے وقت مسجد کی ضروریات تو بتادی جائیں ، لیکن اسے زکات کی رقم مالک بنا کر دی جائے اور دینے والا اور لینے والا یہ سمجھتاہو کہ فقیر مالک ومختار ہے، چاہے تو اسے مسجد کے اخراجات میں صرف کرے اور چاہے تو خود استعمال کرے اور پھر وہ فقیر دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے مسجد کے مصارف میں دے دے تودرست ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ زکات کی رقم پہلےمستحقِ زکات کو دے کر اس کو اس کا مالک بنا دیا تھا، لہذا جن لوگوں نے زکات کی رقم ادا کی ہے، ان کی زکات ادا ہوگئی ہے، دوبارہ ان پر زکات ادا کرنا لازم نہیں ہے۔
نیز چندہ کرنے والا وکیل مذکورہ معاملہ میں ایک امانت دار کی حیثیت رکھتا ہے، جب امانت بغیر کسی تعدی کےامانت دار سے ہلاک ہوجائے، تو اس پر ضمان لازم نہیں ہوتاہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جن لوگوں نے چندہ کی رقم مسجد میں دی تھی، اور ٹھیکیدار اگر واقعۃً انتظامیہ سے پیسے لے کر بھاگ گیاہے، تو اس صورت میں لوگ اس وکیل(انتظامیہ والوں سے)اس رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے ہیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"إذا أراد أن يكفن ميتا عن زكاة ماله لا يجوز والحيلة فيه أن يتصدق بها على فقير من أهل الميت ، ثم هو يكفن به الميت فيكون له ثواب الصدقة ولأهل الميت ثواب التكفين، وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه."
(کتاب الحیل، الفصل الثالث في مسائل الزكاة، ج:6، ص:392، ط:دار الفکر)
کفایت المفتی میں ہے:
سوال:زکات کا روپیہ کیا مسجد میں شرعی حیلہ کرکےیعنی کسی مستحقِ زکات کو زکات کاروپیہ دے کرپھر اس سے لے کر مسجد میں لگاسکتے ہیں یا نہیں؟یہ حیلہ شرعی کن کن امور میں ہوسکتا ہے؟
جواب: سخت ضرورت کی حالت میں اس طرح حیلہ کر کے زکوۃ کی رقم مسجد میں خرچ کرنا جائز ہے کہ کسی مستحق زکوۃ کو وہ رقم بطور تملیک دیدی جائے اور وہ قبضہ کر کے اپنی طرف سے مسجد میں لگاوے یا کسی اور کام میں خرچ کر دے جس میں براہِ راست زکوۃ خرچ نہ کی جا سکتی ہو ۔"
(کتاب الزکوۃ والصدقات،باب: تملیک و حیلۂ تملیک، ج:4، ص:305، ط:دار الاشاعت)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"الوديعة أمانة بيد المستودع بناء عليه إذا هلكت أو فقدت بدون صنع المستودع وتعديه وتقصيره في الحفظ لا يلزم الضمان. فقط إذا أودعت بأجرة لأجل الحفظ وهلكت بسبب ممكن التحرز كالسرقة تكون مضمونة......
بناء عليه إذا هلكت الوديعة كلها أو بعضها أو فقدت بدون صنع المستودع وتعديه وتقصيره في الحفظ كما لو سرقت الوديعة كلها أو بعضها لا يلزم الضمان يعني أن خسائرها تعود على المودع."
(الکتاب السادس الأمانات، الباب الثاني في الوديعة، الفصل الثاني في بيان أحكام الوديعة وضماناتها، ج:2، ص:266، ط:دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102789
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن