بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تیز تراویح پڑھنے والوں کی جماعت میں شریک ہونے کا حکم


سوال

آجکل رمضان المبارک میں حفاظ کرام عوام کی مرضی اور خود جلد سے جلد فارغ ہونے کی خاطر تراویح کے اندر تین اور اس سے زیادہ پاروں کی تلاوت تجوید کی رعایت کیے بغیر پڑھتے ہیں، بظاہر قرآن پاک کی شان گھٹاتے ہیں اور بالکل بھی کسی کی بات نہیں مانتے ہیں،  ایسی صورتحال سارے ہی علاقے میں ہے، کیا کرنا چاہیے؟ کیا ان اماموں کے پیچھے شرکت کی جائے یا اپنی دو تین افراد  کی جماعت گھر میں کی جائے اور اطمینان سے پڑھا جائے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں قرآنِ مجید اللہ جل شانہ کا مقدس کلام ہے، اس کے آداب بھی اتنے ہی عظیم ہیں، جس قدر خود یہ عظیم ہے، قرآنِ کریم میں ہی اسے ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کے احکام و آداب امت کو سکھائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے امت تک پہنچائے ہیں، ان کی رعایت رکھتے ہوئے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا چاہیے، خواہ تراویح  کی  نماز ہو، لہٰذا  تراویح  کی  نماز کو  جلدی ختم کرنے کے لیے قرآنِ مجید کو اس قدر تیز پڑھنا کہ الفاظ  و حروف کی ادائیگی مکمل نہ ہو، شرعاً درست نہیں، اس طرح قرآنِ مجید پڑھنا ثواب کے بجائے گناہ  کا باعث ہے، اس قدر تیز رفتاری سے پڑھنے والوں اور سامعین میں سے اس کی چاہت رکھنے والوں کی فہمائش اور اصلاح کی ضرورت ہے، اگر اس کے باوجود وہ اپنے عمل پر برقرار ہے تو  ایسی جماعتِ تراویح میں شرکت نہیں کرنی چاہیے، ایسی نمازِ تراویح  ثواب کے بجائے گناہ کا باعث   ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويكره الإسراع في القراءةوفي أداء الأركان، كذا في السراجية وكلما رتل فهو حسن، كذا في فتاوى قاضي خان والأفضل في زماننا أن يقرأ بما لا يؤدي إلى تنفير القوم عن الجماعة لكسلهم؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، كذا في محيط السرخسي.

والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيل المساجد وهذا أحسن، كذا في الزاهدي".

(كتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، ج:1، ص:118، ط: مکتبہ رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں