بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکسٹائل مل والوں کا آرڈر پر کپڑا تیار کرنے میں کم دھاگہ لگاکر باقی بچا ہوا دھاگہ خود رکھنا


سوال

میری ٹیکسٹائل مل ہے یعنی میں نے کپڑا بنانے کی مشینیں لگائی ہوئی ہیں، ہم لوگوں کو کپڑا بنا کر دیتے ہیں۔ ہم کنورشن (conversion) پر کام کرتے ہیں یعنی ہمارا گاہک ہمیں دھاگہ دیتا ہے اور اپنی مطلوبہ کوالٹی (تانے اور بانے کی مقدار اور کپڑے کا عرض ) بتاتا ہے ۔ ہم اس کے دیے ہوئے دھاگے سے کپڑا بنا کر دیتے ہیں  اور اس سے ایک متعین رقم وصول کرتے ہیں اور گاہک کی طرف سے دیا ہوا دھاگہ بچ جاتا ہے وہ بھی ہم رکھ لیتے ہیں۔ اضافی دھاگہ جو ہم رکھتے ہیں یہ ہماری کاروبار کا معروف طریقہ ہے بلکہ یہ جو کنورشن کا طریقہ ہے اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ مشین والا رقم کے ساتھ دھاگہ بھی رکھے گا اور اس سے جو کمائی ہوگی وہ مشین والے کی ہی ہوگی۔

(نوٹ: کنورشن کے طریقہ  کے بالمقابل ایک اور  طریقہ بھی  مارکیٹ میں رائج ہے جس کو اورہیڈ (OVERHEAD) کا طریقہ کہا جاتا ہے  اس میں مارکیٹ کا اصول یہ ہے کہ جو دھاگہ بچ جائے گا،  وہ گاہک کو واپس کیا جائے گا۔ اس طریقہ میں کنورشن کے مقابلہ میں اجرت زیادہ ہوتی ہے۔ بہت ساری وجوہ کی بناء پر بڑے گاہک مثلا گل احمد وغیرہ کنورشن پر کام کرتے ہیں۔  )

میرا سوال یہ ہے کہ :

1)    جیسے کہ تمہید میں مذکور ہے کہ گاہک کوالٹی بتاتا ہے یعنی تانا بانا کی مقدار اور کپڑے کا عرض بتاتا ہے اور اس کوالٹی کے حصول کے لیے ایک فارمولا بھی بتا تا ہے  مثلا گاہک کہتا ہے کہ کہ مجھے76 تانا، 66بانا،اور 105 عرض کا اتنا کپڑا چاہیے اور وہ کہتا ہے کہ اس کوالٹی کے حصول کے لیے آپ  7980 دھاگہ کے کون(cone) لگائیں اور وہ ہمیں دھاگہ بھی اسی حساب سے بھجواتا ہے۔

ہم یہ کرتے ہیں کہ کوالٹی اس کے مطابق دیتے ہیں یعنی 76 تانا، 66 بانا ،اور 105 عرض، لیکن 7980 دھاگہ کے کون کی جگہ 7880کون استعمال کرتے ہیں ۔ اس طرح کرنے سے کوالٹی پر کوئی فرق نہیں آتا؛  کیوں کہ گاہک احتیاط پر  مبنی حساب کتاب کرتا ہے اور زیادہ مقدار دھاگہ کی لگانے کو کہتا ہے۔ گاہک کو بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مشین والا کون کم لگا کر بھی یہ کوالٹی حاصل کرلے گا  اور اس کو یہ علم ہوتا ہے کہ جو دھاگہ وہ بچائے گا وہ خود رکھےگا  لیکن مارکیٹ کا ایک طریقہ رائج ہے اس لیے اسی پر سب کچھ چل رہا ہے۔

کیا میرا اس طرح 7980 کے بجائے 7880دھاگہ کے کون لگا کر مطلوبہ کوالٹی دینا شرعا درست ہے؟  اور اس کمی کی وجہ سے جو دھاگہ بچ جاتا ہے کیا اس سے حاصل ہونے والی کمائی جائز ہے؟  

2)   اگر اس کنورشن کے طریقہ پر ہم دھاگہ کی کمی نہیں کریں اور جس طرح گاہک نے کہا اتنی مقدار دھاگہ استعمال کریں تب بھی اخیر میں دھاگہ بچ جاتا ہے تو کیا یہ بچا ہوا دھاگہ ہمیں رکھنا جائز ہے جبکہ مارکیٹ کا عرف اسی طرح ہے اور اجرت بھی اس بناء پر کم ہوتی ہے جیسا کے اوپر تمہید میں گز چکا ہے۔  اگر یہ  طریقہ صحیح نہیں ہے تو اس کی صحیح صورت کیا ہوسکتی ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ    کپڑا بنوانے والے شخص کا   ٹیکسٹائل مل والوں کو دھاگہ فراہم کرکے کپڑا بنانے کا آرڈر کرنا شرعاً”اجارہ“ کا معاملہ ہے،  اس کے  ذریعہ کسی  شخص کی  خدمات اور مہارت ایک متعین معاوضہ کے بدلے میں حاصل کی جاتی ہیں،اور اجارہ کے معاملہ میں   اجرت متعین ہونا   شرعاً  ضروری ہے،  نیز اس معاملہ میں ٹیکسٹائل مل  والے کی حیثیت ”امین “ کی بھی  ہے، اور  کپڑا بنوانے والے کا خام مال اس کے پاس ”امانت“ ہے؛ لہذا  ٹیکسٹائل مل والے کے  لیے  کپڑا بنوانے والے کو اس کے بتائے ہوئے معیار اور طریقہ کے مطابق متعین اجرت کے بدلے میں کپڑا بناکر دینا ضروری ہے، نیز امانت کے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے  بچے ہوئے دھاگہ کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔

1۔   صورتِ مسئولہ  کپڑا بنوانے کا  آرڈر کرنے والاگاہک جب  کپڑے کی کوالٹی   اور اس کے حصول کے لیے فارمولا بھی بتاتا ہے کہ  کپڑے  میں تانا بانا کی مقدار ،عرض   اتنا ہونا چاہیے اور  اس کوالٹی کے حصول کے لیے   دھاگہ کے اتنے کون(cone) لگانے ہیں   اور اسی حساب سے وہ دھاگہ کے کون    (cone) بھی  بھجواتا ہے تو سائل کے لیے اس کے بتائے ہوئے  فارمولے کے مطابق کپڑا تیار کرکے دینا ضروری ہے،  اس  کی صریح اجازت کے بغیر اس سے کم دھاگہ کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، اور  اگر دھاگہ کے کون بچ جائیں تو وہ واپس کرنا ضروری ہوگا۔

2۔  اگر کپڑا بنوانے والے کی طرف سے صراحتاً  اجازت ہو کہ بچا  ہوا دھاگہ آپ کا ہوگا  تو اس صورت میں یہ کام کی اجرت نہیں بلکہ ہدیہ شمار ہوگا  ؛ اس لیے  بچا ہوا دھاگہ رکھنا جائز ہوگا، ورنہ  اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

واضح رہے کہ  بچے ہوئے دھاگہ کو کام کی اجرت قرار دے کر لینا بھی جائز نہیں  ہے ؛ کیوں کہ اس کی مقدار  ”اجارہ“ کے عقد کے وقت مجہول ہوتی ہے، جس سے اصل ”اجارہ“ کا معامہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

اس کی جائز صورتیں یہ ہوسکتی ہیں :

1۔  سوال میں جو  کپڑا بنانے میں   اورہیڈ (OVERHEAD) کا طریقہ  ذکر کیا گیا ہے، اس کے مطابق کام کیا جائے،  جس میں بچا ہوا دھاگہ واپس کردیا جاتا ہے، اور اجرت زیادہ لی جاتی ہے۔

2۔  کپڑا بنوانے والوں سے اجازت لی جائے کہ  آپ جس کوالٹی کا کپڑا بنوانا چاہ رہے ہیں،  ہم آپ کو  اتنے دھاگہ کے کون (cone) لگا  کر اسی کوالٹی کا کپڑا بناکر دے دیں گے، اور دھاگہ کے جو کون اضافی ہیں اس کو طے کر کے شروع ہی میں  کام کی اجرت کا حصہ شمار کرلیا جائے، مثلا:  گاہک نےکہا کہ  مجھے کپڑا بناکر دیں جس میں 76 تانا، 66بانا ہو   ور105 عرض ہو ،  اس کوالٹی کے حصول کے لیے آپ 7980 دھاگہ کے کون(cone) لگائیں تو سائل  ان سے شروع ہی میں معاملہ کرتے وقت اجازت لے لیں کہ  ہم یہی کوالٹی کا کپڑا آپ کو 7880  دھاگہ کے کون(cone) لگاکر بنا کر دے دیں گے، اور بنانے کی اجرت اتنی رقم اور دھاگہ کے 100 کون (cone) ہوں گے، اگر وہ راضی ہوجاتا ہے تو یہ معاملہ جائز ہوگا۔

البتہ اس صورت میں  بھی 7880  دھاگہ کے کون(cone)  میں سے جو دھاگہ بچ جائے  گا وہ گاہک کو واپس کرنا ضروری ہوگا، الا یہ کہ  وہ صراحتاً اس کی  اجازت دے دے کہ  یہ بچا ہوا دھاگہ  آپ کا ہوگا۔ اور  اگر مزید دھاگہ کے کون کی ضرورت پڑی تو  ٹیکسٹائل مل والے کپڑا بنوانے والوں سے اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں،ہاں اگر ٹیکسٹائل مل والے خوشی سے اپنی طرف سے دھاگہ کے کون لگادیں تو یہ بھی جائز ہوگا۔

3۔  ٹیکسٹائل مل والے  گاہک سے کپڑے کی کوالٹی، مقدار اور ضروری اوصاف طے کرکے کپڑا بنانے کا آرڈر لے لیں اور    کپڑا بنانے کے لیے درکار اشیاء مثلاً دھاگہ وغیرہ  خود خرید کر لگائیں،بنوانے والے گاہک سے  دھاگہ کے کون  نہ لیں   اور ان سے اس کپڑے کے آرڈر کی مجموعی قیمت طے کرلیں، اب یہ قیمت کپڑا تیار ہونے کے بعد  وصول کریں یا  مکمل یا کچھ پیشگی وصول کرلیں ، دونوں صورتیں جائز ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
(قوله: وشرطها إلخ) هذا على أنواع: بعضها شرط الانعقاد، وبعضها شرط النفاذ، وبعضها شرط الصحة، وبعضها شرط اللزوم، وتفصيلها مستوفى في البدائع ولخصه ط عن الهندية. (قوله: كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله: بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقداً منها فلو كانت كيلياً أو وزنياً أو عددياً متقارباً فالشرط بيان القدر والصفة وكذا مكان الإيفاء لو له حمل ومؤنة عنده، وإلا فلايحتاج إليه كبيان الأجل، ولو كانت ثياباً أو عروضاً فالشرط بيان الأجل والقدر والصفة لو غير مشار إليها، ولو كانت حيوانا فلا يجوز إلا أن يكون معينا بحر ملخصاً".

 (6 / 5، کتاب الاجارة، ط: سعيد)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"لا خلاف في أن المستأجر أمانة في يد المستأجر كالدار، والدابة، وعبد الخدمة، ونحو ذلك."

(4 / 210، فصل فی حکم الاجارۃ، ط؛ سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ."

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، 6/ 57، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والاستصناع أن تكون العين والعمل من الصانع فأما إذا كانت العين من المستصنع لا من الصانع فإنه يكون إجارة ولا يكون استصناعا كذا في المحيط."

(الفتاوى الهندية  (4 / 517) الباب الحادي والثلاثون في الاستصناع والاستئجار على العمل، كتاب الإجارة، ط: رشيدية)

الفقہ الإسلامي وأدلتہ میں ہے:

"تصح الوكالة بأجر، وبغير أجر، لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث عماله لقبض الصدقات، ويجعل لهم عمولة . فإذا تمت الوكالة بأجر، لزم العقد، ويكون للوكيل حكم الأجير، أي أنه يلزم الوكيل بتنفيذ العمل، وليس له التخلي عنه بدون عذر يبيح له ذلك."

(4/151، الفصل الرابع : نظریة العقد، الوکالة، الوکالة باجر، ط: دارالفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں