بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکسٹ میسج کے ذریعے نکاح کرنا


سوال

میں ایک لڑکے سے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے رابطہ کرتی تھی، لیکن اب میں نے توبہ کر لی ہے، اور ایک باعمل مسلمان بن گئی ہوں، ہم آن لائن ٹیکسٹنگ میں میاں بیوی کی طرح بات چیت کرتے تھے، ایک باراتفاقی طور پر ایک گھنٹے سے زیادہ کی بات چیت کے بعد میں نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے نکاح قبول کر لیا ہے، اور اس نے ہاں میں جواب بھیج دیا، اس نے پھر مجھ سے بھی یہی پوچھا اور میں نے ہاں میں جواب دیا، رات ہو چکی تھی، میں نے کبھی بھی پیغامات کو آواز سے نہیں پڑھا اور نہ ہی انہیں کسی کے ساتھ شیئر کیا، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس کے پاس کوئی گواہ ہے ، جس کو اس نے میرا پیغام پڑھا   یا  نہیں،  جب بھی ہم بات کرتے، وہ مجھے بتاتا تھا کہ وہ اکیلا ہے، میں اپنی ابتدائی نوعمری میں تھی جب یہ ہوا ،اور مذہب سے بہت دور تھی، میرا     ولی اس صورتِ حال سے بالکل بے خبر تھا اور اب مجھے وسوسہ ہو رہا ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ ایجاب و قبول کے الفاظ موجودہ  زمانہ میں تھے یا  ماضی کے دور میں،  اس کے علاوہ   کئی بار یاد کرنے کی کوشش کرنے پر    مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ اس نے مجھ سے پوچھا تھا "کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟" اور میں میسج  کے ذریعے ہاں میں جواب دے رہی ہوں اور اس کے برعکس،     مجھے مسلسل وسوسہ ہو رہا ہے، اور اب اس لڑکے سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ کیا میرا نکاح حنفی مسلک کے مطابق صحیح تھا؟

جواب

شریعت نے نکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے، اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ شرعاً نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس کا  ایک ہونا ، اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا  خود موجود ہونا  یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے،  نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا، اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے، اور اگر جانبین (لڑکا یا لڑکی ) میں سے کوئی ایک مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تووہ نکاح منعقد نہیں ہوتا، اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلسِ نکاح میں ایجاب وقبول کریں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا،ٹیکسٹ میسج پر نکاح میں  مجلس کی شرط مفقود ہوتی ہے، کیوں  وہ ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین اور گواہوں  کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے،لہذا  ایسی صورت میں ٹیکسٹ میسج  کے ذریعے نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ 

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ   لڑکے نے سائلہ سے یہ پوچھاکہ " کیا تم مجھ سے شادی کروگی" اور سائلہ نے جواب میں " ہاں" کہا تو اس سے  نکاح منعقد  نہیں ہوا، کیوں  کہ  یہ نکاح کا وعدہ ہے، نکاح نہیں ۔ اسی طرح جب سائلہ نےاس سے یہ پوچھا کہ: " کیا آپ نے نکاح قبول کرلیا ہے  " اور اس نے جواب دیا" ہاں" اور پھر اس نے بھی یہی سوال کیا اور سائلہ نے جواب دیا کہ :" ہاں " تو اس سےبھی نکاح منعقد  نہیں ہوا ،اور گواہ   بھی موجود نہیں تھے ، الغرض مجلس نکاح نہیں تھی ،الگ الگ  مقام سے موبائل پر نکاح نہیں ہوا۔

درمختار میں ہے:

"لو ‌قال ‌هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح."

(کتاب النکاح، 11/3، ط: دار الفكر - بيروت)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"الخطبة ليست زواجاً، وإنما هي مجرد وعد بالزواج، فلا يترتب عليها شيء من أحكام الزواج."

(الثاني عشر ـ تحريم الخلوة بالمخطوبة  ،  18/9، ط :  دار الفكر)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز."

(كتاب النكاح ،الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه ، 269/1 ، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم



فتوی نمبر : 144508102251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں