بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیکس سے بچنے کے لیے کسی کو مکان گفٹ کرنا


سوال

میرے والدصاحب کا انتقال ہوا،ورثاءمیں دوبیٹے اوردو بیٹیاں ہیں،والد صاحب کے والدین اوربیوی کا انتقال ان سے پہلے ہوا ہے،نیز اس کے علاوہ ایک شادی شدہ بیٹی کا انتقال بھی والد اور ان کی بیوی سے پہلے ہوا ہے۔

والد کے ترکہ میں ایک گھر  ہے،جو کہ والد مرحوم ہی کی زمین تھی اور ان ہی کے پیسوں سے گھر بنا،والد نے اپنے پیسوں سے زمین خریدی تھی،لیکن خریدنے کی وجہ سے ٹیکس آرہا تھا،تو ٹیکس سے بچنے کے لیے والدہ کے نام گفٹ ڈیڈ بنوایا،لیکن حقیقتاً کوئی گفٹ کرنا مقصود نہیں تھا،اس پرمیری خالہ اور ماموں بھی گواہ ہیں۔

والدہ جب سخت بیمار تھی اور کینسر کے آخری اسٹیج پر تھی،تو میرا چھوٹا بھائی  والدہ کی بیماری سے   فائدہ اٹھا کر والد مرحوم کے گھر کے کاغذات جو والدہ کے نام تھے،ان کو K.D.Aمیں لیز کرانے کے بہانے سے لے گیا اور K.D.Aسے تصدیق کرانے پر معلوم ہواکہ اس نے سیل ایگریمنٹ سے مکان اپنے نام کروایا ہے اور میری والدہ کے جعلی دستخط وغیرہ کیے ہیں۔

اب اس  گھرکے نچلے فلور میں،میں رہتی ہوں اور میرا چھوٹا بھائی مجھے گھر خالی کرنے کاکہہ رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ میرے بھائی کا   مذکورہ طریقہ  کار اختیار  کرنا شرعاً جائز ہے،اس طرح کرنے سے مذکورہ گھر  اس کی ملکیت میں داخل ہوگا؟اگر نہیں تو مذکورہ گھروالد مرحوم کے ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعتًا صحیح اور درست ہے کہ سائلہ کے والد صاحب نے اپنی ذاتي رقم سے زمین خریدی تھی اور ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنی بیوی یعنی سائلہ کی والدہ کے نام گفٹ ڈیڈ بنوائی تھی،اس سے والد  صاحب کا مقصد اپنی بیوی کو مالک بنانا نہیں تھا،تو ایسی صورت میں مذکورہ زمین والدہ کی ملکیت میں داخل نہیں ہوئی تھی،بلکہ  اس زمین پر والد کی ہی ملکیت باقی تھی۔

پھر  اس کے بعد اگر واقعتًا  سائلہ کے چھوٹے بھائی نے والدہ کی بیماری سے فائدہ اٹھا کر  مذکورہ گھر کا سیل ایگریمنٹ بنواکر ،اس پر والدہ کے جعلی دستخط  وغیرہ کر کے ،گھر اپنے نام کروایا ہے،تو اس  بھائی کے لیے ایساکرنا شرعاً جائز نہیں ہے،ایسی جعل سازی کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوا اوراس طرح کرنے سے وہ  گھراس کی ملکیت میں داخل نہیں ہوا ہے،بلکہ اس بھائی پر لازم ہے کہ مذکورہ گھر کو والد مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کےشرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردے،ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"(و قوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لايكون هبة."

(کتاب  الھبہ/ج:5/ص:689/ط:سعید)

الدر المختار میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(کتاب الھبہ/ج:5/ص:690/ط:سعید)

باقی سائلہ کے والد مرحوم کے ترکہ کی شرعی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل ترکہ میں سےسب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،مرحوم کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو ،تو اسے ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد،مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو ،تو اسے بقیہ ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد،باقی ماندہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کےچھ حصے کرکے،مرحوم کے ہر ایک بیٹے کودو حصےاور ہر ایک بیٹی کو ایک،ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت۔۔۔والد مرحوم۔۔۔6

بیٹابیٹابیٹیبیٹی
2211

یعنی 100فیصد میں سے مرحوم کے ہرایک بیٹے کو33.33فیصداور ہر ایک بیٹئ کو16.66فیصد حصہ ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں