میری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں، لیکن میری اولاد نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میری ماہواری ہرمہینہ نہیں آتی، کبھی دوائی سے کبھی اچھی خوراک سے آتی ہے، مجھے یہ (cyst بیماری) مسئلہ ہے، میرے شوہر کے ساتھ بھی مسئلہ ہے ان کے سپرم یعنی جراثیم میں کمی ہے، یعنی معیار اچھا نہیں ہے اور شاید سائز ٹھیک نہیں ہے، ہم نے بہت ڈاکٹر کو دکھایا انہوں نے یہی مشورہ دیا ہے، کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کریں یعنی شوہر کے جراثیم لے کر بیوی کے بچہ دانی میں ڈالیں گے اور اس کا ادارہ کلفٹن کے پاس ہے آسٹریلین کانسیپٹ(australian concept) کے نام سے اور اس میں شوہر کے جراثیم اور بیوی کےانڈے کے ساتھ مل کر یہ عمل ہوگا، لیکن وہ خود ہی کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ یہ عمل کامیاب ہو، لیکن کامیاب ہوبھی جاتا ہے، ہم لوگ علاج کرکے تھک گئے ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دوائی کھانے سے کوئی فائدہ نہیں، پیسے اور وقت کا ضیاع ہے، آپ کو یہ عمل کروانا ہوگا، ورنہ مشکل ہے۔
اصل مسئلہ شوہر کا ہے، تو میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ شرعی لحاظ سے یہ جائز ہے یا نہیں؟اس عمل کو ٹیسٹ ٹیوب بےبی کہتے ہیں، ویسے وہاں ڈاکٹر گارنٹی دیتے ہیں کہ ہم یہ جائز طریقے سے ہی کرتے ہیں، اگر کام ٹھیک نہ ہوتا تو ہمارا ادارہ کب کا بند ہوچکا ہوتا اور وہاں کے ڈاکٹر کا کہنا یہ بھی ہےکہ جیسے جیسے وقت گزرے گا اور عمر بڑھے گی، چانس بھی کم ہوتا جائے گااس عمل کا، وہ ادارہ کلفٹن کی طرف ہے اور وہاں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں، شوہر کو بھروسہ نہیں آرہا اور ان کا کہنا یہ ہے کہ پیسے بہت لگیں اور علاج کامیاب نہ ہوا تو؟شوہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب عمل وہ ادارے والے اس کی نگرانی میں کریں، لیکن اس ادارے کے لوگ شوہر کی اس بات پر کیا پتہ توجہ نہ دیں، اور یہ ہسپتال ویسے بھی شاید باہر والوں کی شاگردی میں ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اولاد کا حصول نعمتِ خداوندی ہے، لیکن اللہ تعالی کے ہاں طے شدہ مقدر کے مطابق ہے ،اس نعمت کے حصول کے لیے مردکواللہ تعالیٰ نے چارعورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کی اجازت دی ہے،لہٰذا اگر بیوی میں ولادت سے مانع مرض ہے تو علاج کرایا جائے یا پھر دوسری شادی کرلی جائے اور اگر شوہر میں کوئی کمزوری ہے تو اس کا علاج کرایا جائے، البتہ حتی الامکان اس غیر فطری طریقہ سے اجتناب کیاجائے۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے،جس میں مرد کا مادہ منویہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں ڈالا جاتاہے یا شوہر کا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے مثلاً جلق وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرکے غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں، مرد کا مادہ منویہ اور عورت کابیضہ ملا کرٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں ، پھر انجیکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں اس کی بیوی کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اور یہ عمل میاں بیوی کے علاوہ کوئی تیسرا فرد انجام دیتا ہے یا پھر اس عمل میں کسی تیسرے فرد کا عمل دخل نہيں ہوتا، بل کہ شوہر انجام دیتا ہے یا بیوی ازخود شوہر کا نطفہ اپنے رحم میں ٹھہرا لیتی ہے۔
مندرجہ بالا طریقوں میں ابتدائی دو طریقے ناجائز اور تیسرا طریقہ جائز ہے۔
اگر فطری طریقے سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے باوجود اولاد نہ ہورہی ہو ا ور دونوں میں اولاد کے لیے مطلوبہ صلاحیت موجود تو ہو، لیکن خاوند کسی وجہ سے اپنا مادہ منویہ بیوی کے رحم میں پہنچانے پر قادر نہ ہو یا عورت کے رحم میں امساک و استقرار کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش ممکن نہ رہےاور تحصیلِ اولاد کے لیےکوئی مستند مسلمان ڈاکٹر یہ عمل تجویز کرےتو ڈاکٹر سے اس عمل کا طریقۂ کار معلوم کرکے شوہر اپنا مادہ منویہ خود یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے رحم میں داخل کرے اور اس میں کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر کسی مرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی چھوئے) تو اس کی گنجائش ہوگی،نیز اِس صورت میں جو بچہ پیدا ہو گا وہ حقیقی ہو گا اور اُس پر حقیقی بچوں والے احکام ہی لاگو ہوں گے، نہ کہ لے پالک کے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب".
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج:6، ص:371، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وذكر شمس الأئمة الحلواني - رحمه الله تعالى - في شرح كتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم يكن ثمة ضرورة ولكن فيها منفعة ظاهرة بأن يتقوى بسببها على الجماع لا يحل عندنا".
(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له، ج:5، ص:330، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولا يجوز لها أن تنظر ما بين سرتها إلى الركبة إلا عند الضرورة بأن كانت قابلة فلا بأس لها أن تنظر إلى الفرج عند الولادة.وكذا لا بأس أن تنظر إليه لمعرفة البكارة في امرأة العنين والجارية المشتراة على شرط البكارة إذا اختصما وكذا إذا كان بها جرح أو قرح في موضع لا يحل للرجال النظر إليه فلا بأس أن تداويها إذا علمت المداواة فإن لم تعلم تتعلم ثم تداويها فإن لم توجد امرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخيف عليها الهلاك أو بلاء أو وجع لا تحتمله يداويها الرجل لكن لا يكشف منها إلا موضع الجرح ويغض بصره ما استطاع لأن الحرمات الشرعية جاز أن يسقط اعتبارها شرعا لمكان الضرورة"
(كتاب الاستحسان، ج:5، ص:124، ط: دار الكتاب الإسلامي)
الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:
"التلقيح الصناعي:هو استدخال المني لرحم المرأة بدون جماع. فإن كان بماء الرجل لزوجته، جاز شرعاً، إذ لا محذور فيه، بل قد يندب إذا كان هناك ما نع شرعي من الاتصال الجنسي".
(القسم الأول العبادات، الباب السابع الحظر والإباحة، المبحث الرابع الوطء والنظر واللمس واللهو والتصوير والوسم والوشم وأحكام الشعر والنتف والتفليج والسلام، أولا: الوطء، ج:4، ص:2649، ط: دار الفكر)
وفیہ أیضاً:
"السادسة: أن تؤخذ نطفة من زوج وبييضة من زوجته ويتم التلقيح خارجياً ثم تزرع اللقيحة في رحم الزوجة.
السابعة: أن تؤخذ بذرة الزوج وتحقن في الموضع المناسب من مهبل زوجته أو رحمها تلقيحاً داخلياً.
أما الطريقان السادس والسابع فقد رأى مجلس المجمع أنه لا حرج من اللجوء إليهما عند الحاجة مع التأكيد على ضرورة أخذ كل الاحتياطات اللازمة".
(القسم الرابع الملكية وتوابعها، معالم النظام الاقتصادي في الإسلام، قرارات مجمع الفقه الإسلامي، الدورة الثالثة، أطفال الأنابيب، ج:7، ص:5100، ط: دار الفكر)
فتاوی بینات میں مفتی عبد السلام صاحب لکھتے ہیں:
”ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ اولاد پیدا کرنے کا دوسرا طریقہ جس میں مرد اور عورت دونوں میاں بیوی ہوں مگر فطری طریقہ سے ہٹ کر غیر فطری طریقہ سے مرد کے جرثومے اور عورت کے جرثومے کو نکال کرخاص ترکیب سے بیوی کے رحم میں داخل کرتے ہیں۔ اس کا حکم پہلے سے مختلف ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شوہر کا مادہ منویہ عورت کے رحم میں داخل کیا گیا جو کہ نا جائز نہیں ہے۔ اس طرح اس سے حمل ٹھہرا تو بچہ ثابت النسب ہوگا اور اس میں کوئی تعزیری حکم نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے کہ زنا کے حکم میں نہیں ہے اور اس میں گناہ بھی نہیں ہوگا۔ جبکہ دونوں کے جرثومے کے نکالنے اور داخل کرنے میں کسی اجنبی مرد اور عورت کا عمل دخل نہ ہو بلکہ سارا کام بیوی اور شوہر خود ہی انجام دیں، لیکن شوہر اور بیوی کے جرثومے کو غیر فطری طریقہ سے نکالنے اور عورت کے رحم میں داخل کرنے میں اگر تیسرے مرد یا عورت کا عمل دخل ہوتا ہے اور اجنبی مرد یا عورت کے سامنے شرمگاہ دیکھنے یا دکھانے اور مس کرنے یا کرانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس طرح بے حیائی اور بے پردگی کے ساتھ بچہ پیدا کرنے کی خواہش پوری کرنے کی اجازت شرعا نہ ہوگی ۔ کیونکہ بچہ پیدا کرنا کوئی فرض یا واجب امر نہیں ہے، نہ ہی بچہ پیدا ہونے سے انسان کو جان یا کسی عضو کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے۔ تو گویا کہ کوئی شرعی ضرورت و اضطراری کیفیت نہیں پائی جاتی ، جس سے بدن کے مستور حصے خصوصا شرمگاہ کو اجنبی مرد یا عورت ڈاکٹر کے سامنے کھولنے کی اجازت ہو۔ لہذا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے دوسرے طریقہ کو اگر کسی اجنبی مرد یا اجنبی عورت ڈاکٹر کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے تو جائز نہیں ہے۔ یعنی گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوگا۔ تاہم بچہ کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا۔ اس کو باپ سے وراثت ملے گی ۔ صحیح اولاد کے احکام اس پر جاری ہوں گے“۔
(کتاب الحظر والإباحۃ، ج:4، ص:317/318، ط: مکتبہ بینات)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603103162
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن