بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا حکم


سوال

شادی ہو جانے کے بعد اولاد نہ ہونے کی صورت میں میڈیکلی ٹریٹمنٹ کے ذریعہ مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں ڈال دیا جاۓ اور بچے کی پیدائش ہو جاۓ مثلا test tube baby تو ایسا کرنے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب

اولاد  کا حصول نعمت خداوندی  ہے ، لیکن اللہ تعالی کے ہاں طے شدہ مقدر کے مطابق ہے ،اس نعمت کے حصول کے لیے مردکواللہ تعالیٰ نے چارعورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کی اجازت دی ہے،لہٰذا اگر بیوی میں ولادت سے مانع  مرض ہے تو دوسری شادی کرلی جائے۔  ٹیسٹ  ٹیوب  بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے،جس میں کبھی غیر مرد کا مادہ منویہ یا اجنبی عورت کا رحم استعمال کیا جاتاہے اور کبھی شوہرکا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے مثلاً جلق وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرکے  غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں، مردکامادہ منویہ اورعورت کابیضہ ملاکرٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں ، پھرانجکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور اس کے پہنچانے کا عمل (عموماً)  اجنبی مرد یا عورت سرانجام دیتے ہیں جوشرعاً جائزنہیں ہے ،اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔ 

البتہ اگر کسی ڈاکٹر سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار معلوم کرکے شوہر  اپنا مادہ منویہ خود  یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے  رحم میں داخل کرے اور اس میں کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر  کسی غیر مرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی  چھوئے) تو اس کی گنجائش ہوگی۔

"كتاب الأصل لمحمد الشیبانی"میں ہے:

"والرجل من الرجل لا ينبغي له أن ينظر منه إلا ما تنظر  منه المرأة. ولا ينبغي له أن ينظر من الرجل إلى ما بين  سرته إلى ركبته ولا بأس بالنظر إلى سرته. ويكره النظر منه إلى ركبته. وكذلك المرأة من المرأة."

(کتاب الاستحسان ،ج:2،ص:237،ط:دار ابن حزم)

فتاوی عالمگیری  میں ہے :

"امرأۃ أصابتها قرحة في موضع لايحلّ للرجل أن ينظر إليه لايحلّ أن ينظر إليها، لکن تعلم امرأۃً تداويها، فإن لم يجدوا امرأۃً تداويها، و لا امرأۃ تتعلم ذلك إذا علمت و خيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنّه يستر منها کل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثمّ يداويها الرجل و يغضّ بصرہ ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، و لا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهنّ؛ لأنّ النظر إلی العورۃ لايحلّ بسبب المحرمية، کذا في فتاوٰی قاضي خان."

(الباب التاسع في اللبس،ج:5،ص:330،ط:المطبعة: الکبری الامیریة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں