بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹيسٹ ٹيوب بے بي كا حكم


سوال

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعاً کیا حکم ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔

جواب

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی بنیادی طور پر  تین صورتیں ہیں:

1) مرد کا مادہ منویہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں ڈالا جاتاہے۔

2) شوہر کا مادہ منویہ اس کی بیوی کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اور یہ عمل میاں بیوی کے علاوہ کوئی تیسرا فرد انجام دیتا ہے۔

3) شوہر کا مادہ منویہ اس کی بیوی کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے لیکن اس عمل میں کسی تیسرے فرد کا عمل دخل نہيں ہوتا، بلکہ شوہر انجام دیتا ہے یا بیوی ازخود شوہر کا نفطہ اپنے رحم میں ٹھہرا لیتی ہے۔

مذکورہ بالا تین صورتوں میں سے پہلی دو صورتیں شرعاً ناجائز اور حرام ہیں، البتہ اگر فطری طریقے سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے باوجود اولاد نہ ہورہی ہو تو تحصیلِ اولاد کے لیے تیسری صورت اختيار كرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن أبي مرزوق حبيب، قال: غزونا مع رويفع بن ثابت الأنصاري نحو المغرب، ففتحنا قرية يقال لها حربة قال: فقام فينا خطيبا فقال: إني لا أقول فيكم إلا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا يوم خيبر: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فلا يسقين ماءه ‌زرع ‌غيره،"

(مصنف ابن ابي شيبه، جلد4، كتاب النكاح، باب ما قالوا في الرجل يشتري جارية و هي حامل، ص: 28، ط: مكتبة الرشد، الرياض)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب۔"

(فتاوی شامی بھامش الدر المختار، جلد6، کتاب الحظر و الاباحة، فصل فی النظر و اللمس، ص: 371، ط: ایچ ایم سعید)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144304100665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں