سسر نے اپنے داماد کو مارا گالیاں دیں، ساس نے داماد سے کہا: تو مجھے گالیاں دے، داماد نے کہا: تیری بیٹی میری بہن ہے، اب اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ الفاظ"تیری بیٹی میری بہن ہے" طلاق کی نیت سے کہے تھے تو مذکورہ الفاظ کی وجہ سے ایک طلاقِ بائن ہو گئی ہے۔ اگر طلاق کی نیت نہ تھی تو مذکورہ الفاظ سے طلاق یا ظہار نہیں ہوگا، البتہ بیوی کے لیے ایسے الفاظ کہنا ناپسندیدہ ہے، آئندہ احتیاط کرے۔ نیز سسر کا داماد کو گالی دینا اور مارنا تہذیب و شرافت کے خلاف، بلکہ گناہ ہے۔
الفتاوى الهندية (1/ 506):
’’وحكم الظهار حرمة الوطء والدواعي إلى غاية الكفارة كذا في فتاوى قاضي خان.
’’ولو قال لها: أنت علي مثل أمي أو كأمي ينوي، فإن نوى الطلاق وقع بائناً، و إن نوی الكرامة أو الظهار فكما نوی، هكذا في فتح القدير. و إن لم تكن له نية فعلی قول أبي حنيفة رحمه الله تعالي لايلزمه شيء حملاً للفظ علی معنی الكرامة، كذا في الجامع الصغير‘‘.
(الباب التاسع في الظهار، ١/ ٥٠٧، ط: رشيدية)
الفتاوى الهندية (1/ 505):
’’الظهار هو تشبيه الزوجة أو جزء منها شائع أو معبر به عن الكل بما لا يحل النظر إليه من المحرمة على التأبيد ولو برضاع أو صهرية كذا في فتح القدير سواء كانت الزوجة حرة أو أمة أو مكاتبة أو مدبرة أو أم ولد أو كتابية‘‘.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200520
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن