بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیپ ریکارڈ سے دی جانے والی اذان کا شرعی حکم


سوال

زید کچھ عرصے پہلے (2018) مکہ مکرمہ میں روزی کے سلسلے میں تھا، اور زید کا حدود حرم میں موجود مقام "عزیزیہ" میں کبھی جانا ہوتا تھا، اور نماز کے وقت قریب کی ایک جامع مسجد میں نماز پڑھنا ہوتا تھا، زید نے وہاں پر دیکھا کہ اذان کے وقت ریڈیو کو مسجد کے مائک کے پاس رکھ دیا گیا اور ریڈیو والی اذان مسجد ہٰذا میں ہوئی، زید کا غالب گمان ہے کہ وہ اذان جو حرم مکی سے ریڈیو پر نشر کیا جاتا ہے، ریڈیو کو مسجد کے مائک کے پاس رکھ دیا اور اسپیکر سے وہی اذان ہوئی، اور پھر وقتِ اقامت امام صاحب نے خود اقامت کہی اور نماز پڑھائی۔

1: کیا ریڈیو وغیرہ کی مباشر اذان کو کسی مسجد میں چلا دینے سے نماز درست ہے؟

2: کیا ایک مسجد کی اذان دوسری مسجد کے لیے کافی ہے؟ یا حرم کے ساتھ کچھ خاص مسئلہ ہے؟ یا کسی اور مذہب میں ایسی اجازت ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ریڈیو سے نشر ہونے والی اذان اگر مسجد کی لاؤڈ اسپیکر سے دی جائے تو اذان کی سنت ادا نہ  ہوگی، نیز ایک مسجد کی اذان دوسری مسجد کے لیے کافی نہیں ہوگی،  اگر ایسا کیا گیا تو اس مسجد میں  نماز بغیر اذان کے پڑھی ہوئی شمار ہوگی۔ اس بارے میں حرم اور غیر حرم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز اصلِ مذہب کے اعتبار سے دیگر مسالک میں بھی یہی حکم ہے۔

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي میں ہے:

"سادسًا: أن يكون المؤذن مسلماً عاقلاً (مميزاً)، رجلاً، فلايصح أذان الكافر.

والمجنون والصبي غير المميز والمغمى عليه والسكران؛ لأنهم ليسوا أهلاً للعبادة، ولا يصح أذان المرأة؛ لحرمة أذانها ولأنه لا يشرع لها الأذان، فلا تصح إمامتها للرجال، ولأنه يفتتن بصوتها؛ ولا يصح أذان الخنثى، لأنه لا يعلم كونه رجلاً.

وهذا شرط عند المالكية والشافعية والحنابلة. ويقرب منهم مذهب الحنفية، لأنهم قالوا: يكره تحريماً أذان هؤلاء الذين لم تتوافر فيهم هذه الشروط، ويستحب إعادته. وعلى هذا: يسن عند الحنفية: أن يكون المؤذن رجلاً عاقلاً تقياً عالماً بالسنة وبأوقات الصلاة. ولا يشترط عند الجمهور (غير المالكية) البلوغ والعدالة، فيصح أذان الصبي المميز، والفاسق، لكن يستحب أن يكون المؤذن بالغاً أميناً، لأنه مؤتمن يرجع إليه في الصلاة والصيام، فلا يؤمن أن يغرهم أذانه إذا لم يكن كذلك."

(كتاب الصلوة، الفصل الثالث الاذان والاقامة، شروط الاذان، ج:1، ص:599، ط:مكتبه رشيديه)

" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 6 / 66 ، 67 ) .

"وقد قرر " مجلس المجمع الفقهي الإِسلامي برابطة العالم الإسلامي " ، الدورة التاسعة – في مكة المكرمة - من يوم السبت لعام 1406هـ ما يلي :

إن الاكتفاء بإذاعة الأذان في المساجد عند دخول وقت الصلاة بواسطة آلة التسجيل ، ونحوها : لايجزئ ، و لايجوز في أداء هذه العبادة، و لايحصل به الأذان المشروع ، و أنه يجب على المسلمين مباشرة الأذان لكل وقتٍ من أوقات الصلوات ، في كلّ مسجدٍ ، على ما توارثه المسلمون من عهد نبيّنا ورسولنا محمد صلى الله عليه وسلم إلى الآن.والله أعلم."

 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144205201323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں