بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹینشن اور خیالات کا علاج


سوال

بچپن ہی سے میں اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرتی ہوں،  جب کہ میرے بھائی بہن امی ابو ماشاءاللہ حیات ہیں،  مگر شاید کہ کوئی نفسیاتی عارضہ کہہ لیں یا کوئی کمی کہہ لیں، میں  نے خیالی دوست بنائے رکھے ہیں،  اب جب کہ میں خود بچوں والی ہوں، پھر بھی میرے ذہن میں وہ لوگ موجود ہیں اور وقت بے وقت جب مجھے کوئی مشکل ہوتی ہے، تو میں ان سے ایسے گفتگو کرتی ہوں، جیسے وہ میرے اردگرد موجود ہیں ۔

ابھی چند روز قبل میں نے قرآن شریف میں سورۃ الزخرف کی آیت نمبر 36 اور  37  کا ترجمہ پڑھا،  کیا میں کسی گناہ مسلسل کا شکار تو نہیں؟  کیا میں وہی نہیں جس کا اس آیت میں ذکر ہے ذرا راہنمائی فرما دیں ،  الحمدللہ نماز قرآن اور عبادت پابندی سے کرتی ہوں ، مگر جب بھی ذہنی پریشانی ہو ان دیکھے دوستوں سے گفتگو بڑھ جاتی ہے ، جس سے نماز بھی متاثر ہوتی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو چاہیے کہ اپنے ذہن کو ایک طرف کر کے اللہ کی طرف رجوع کر کے نماز  اور عاؤں کا اہتمام کرے اور  کثرت سے استغفار کرے  اور کثرت سے اللہ کے ذکر  کا اہتمام کرے، کیوں کہ اللہ نے اپنے ذکر ہی میں دلوں کا اطمینان رکھا ہے اور اپنے دل اور دماغ کو ان خیالات  سے دور رکھے، جب بھی یہ خیالات دل میں  آئیں، تو انہیں دور کرنے کی کوشش کرے، اور جب بھی اس طرح کی پریشانی  ہو تو یہ دعا پڑھنے کا اہتمام کرے، ان شاء اللہ  اس مشکل سے نجات حاصل ہوجائے گی:

 ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمُ‘‘.

کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی، تو آپ اس مذکورہ دعا کے پڑھنے کا اہتمام کرے۔

اور سائلہ نے جن دو آیات کا سوال میں ذکر کیا ہے، اس آیت کا مصداق وہ لوگ ہيں جو اللہ کے احکام اور نصیحتوں  سے  جانتے بوجھتے اندھے بن جائیں اور  روگردانی کریں، قرآنِ کریم میں ہے:

"وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ۔ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ [الزخرف:36، 37]"

ترجمہ: "اور جو شخص اللہ کی نصیحت سے اندھا بن جاوے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ ان کو راہِ (حق) سے روکتے رہتے ہیں اور یہ لوگ یہ خیال کرتے رہتے ہیں کہ راہ (راست) پر ہیں۔"  (بیان القرآن، مکتبہ رحمانیہ)

چنانچہ  مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

"اور جو شخص اللہ کی نصیحت یعنی قرآن اور وحی) سے جان بوجھ کر اندھا بن جائے (جیسے یہ کفار  ہیں کہ  کافی شافی دلائل  کے ہوتے ہوئے تجاہل سے کام لیتے ہیں) ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وه  (ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے اور وہ (ساتھ رہنے والے شیاطین) ان (قرآن سے اعراض کرنے والوں) کو ( برابر) راہِ حق سے روکتے رہتے ہیں (اور تسلط کا یہی اثر ہے) اور یہ لوگ (با وجود راہِ حق سے دور ہونے کے) یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ہم) راہ(راست) پر ہیں (سوجس گمراہی کی صورت اور یہ حالت ہو اس کے راہ پر آنے کی کیا امید ہے؟ سو غم کیوں کیا جائے اور یہی تسلی رکھئے کہ ان کا یہ تغافل جلدی ہی ختم ہو گا اور جلدی ہی ان کو اپنی  غلطی ظاہر  ہو جائے گی ،کیوں کہ یہ تغافل صرف دنیا ہی دنیا تک ہے)۔"

(سورۃ الزخرف، ج:7، ص:736، ط:مکتبہ معادفت القرآن)

قرآن کریم میں ہے:

"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ." ﴿الرعد: ٢٨﴾

حديث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار، وعبيد الله بن سعيد - واللفظ لابن سعيد - قالوا: حدثنا معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، عن أبي العالية، عن ابن عباس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول عند الكرب: «لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله ‌رب ‌العرش ‌العظيم، لا إله إلا الله رب السماوات ورب الأرض ورب العرش الكريم."

(كتاب العلم، ج:4، ص:2092، ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144401101851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں